Ficool

رہگزرِ درد

Bint_e_imran
7
chs / week
The average realized release rate over the past 30 days is 7 chs / week.
--
NOT RATINGS
73
Views
Synopsis
یہ آپ کی کہانی ”رہگزرِ درد“ کا مسودہ بہت مضبوط اور دل کو چھونے والا ہے۔ آپ نے بچپن کی محرومی، والدین کے رویے، غربت، بھائی کے ساتھ موازنہ، محبت میں دھوکہ، اور آخرکار نفسیاتی شکستگی کو بڑی مہارت سے دکھایا ہے۔ کہانی کا تاثر یہ ہے کہ یہ صرف روحان کی نہیں بلکہ اُن ہزاروں نوجوانوں کی کہانی ہے جو حالات کے ہاتھوں ٹوٹ کر رہ جاتے ہیں
VIEW MORE

Chapter 1 - رہگزرِ درد

تحریر: کنزہ عمران مغل

"زندگی بعض اوقات انسان کے حصے میں وہ درد ڈال دیتی ہے، جس کا بوجھ صدیوں تک روح اُٹھاتی رہتی ہے۔" یہی وہ جملہ ہے جو روحان کی زندگی کو گویا ایک آئینے کی طرح بیان کرتا ہے۔

"بعض لوگ دنیا کے شور میں اتنے دب جاتے ہیں کہ ان کی آواز صرف ان کے دل کے کمرے تک محدود رہ جاتی ہے۔"

روحان اپنے والدین کا تیسرا بیٹا تھا۔ بڑا بھائی فراز تھا، جو بچپن ہی سے ذہین اور محنتی مانا جاتا تھا۔ دوسرا بھائی، بلال، اپنی ضد اور غصے کے باعث اکثر والدین کی توجہ کھینچ لیتا تھا۔ چار بہنیں بھی تھیں جن کے ناز و نخرے والدین کو برداشت کرنا پڑتے تھے۔ یوں بچوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن محبت اور سکون کم، کیونکہ گھر کا ماحول ہمیشہ کسی نہ کسی بوجھ اور کشمکش کے نیچے دبا رہتا تھا۔

روحان کی ماں، شگفتہ، ایک ایسی عورت تھی جس نے کبھی گھریلو زندگی کو سنبھالنے کی ذمہ داری پوری نہ کی۔ وہ اپنی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی اور چونکہ کبھی گھر کے کام کاج کا بوجھ اُٹھانے کی عادت نہ پڑی تھی، اس لیے نہ صفائی کا شعور تھا اور نہ کھانے پکانے یا گھر کو سنبھالنے کا سلیقہ۔ شادی کے بعد بھی اس کی یہی عادت برقرار رہی۔ گھر کے معاملات اکثر بکھرے رہتے کیونکہ وہ خود کو محنت اور ذمہ داری سے ہمیشہ دور رکھتی۔

روحان کے والد، سلیم، ایک سادہ مگر بے حد محنتی انسان تھے۔ وہ صبح سے شام تک اپنے بچوں کے لیے محنت کرتے اور ساتھ ہی اپنی ماں کی خدمت بھی خود انجام دیتے۔ شگفتہ نے کبھی ساس کی خدمت کی نہ گھر کی بھاگ دوڑ سنبھالی، لہٰذا یہ بوجھ بھی سلیم کے کاندھوں پر آ گیا۔ وہ نہ صرف کمائی کرتے بلکہ اپنی بوڑھی ماں کی دیکھ بھال بھی کرتے۔ یوں وہ ہمیشہ دوہری ذمہ داریوں میں پسے رہتے۔

سلیم کو اپنی بہنوں سے بھی بے پناہ محبت تھی، کیونکہ وہ اکلوتا بھائی تھا اور بہنوں کی خوشیاں اس کے لیے سب کچھ تھیں۔ بہنیں بھی اس پر جان چھڑکتی تھیں۔ مگر شگفتہ کے دل میں یہی چیز ایک مستقل کانٹے کی طرح چبھتی رہی۔ وہ سمجھتی کہ سلیم کی ترجیح اپنی ماں اور بہنیں ہیں، نہ کہ وہ خود یا اس کے بچے۔ یہی احساس وقت کے ساتھ اس کے دل میں ایک خلا پیدا کرتا گیا۔

روحان نے بچپن ہی سے گھر کی یہ تلخ حقیقتیں دیکھیں۔ کبھی ماں کی لاپرواہی، کبھی والد کا صبر اور محنت، اور کبھی دادی کی بیماریوں میں والد کی خدمت گزاری۔ وہ اکثر خود کو اپنے بہن بھائیوں سے الگ محسوس کرتا۔ نہ وہ فراز کی طرح ذہین تھا، نہ بلال کی طرح ضدی، اور نہ ہی بہنوں کی طرح لاڈلا۔ وہ ایک درمیانی کیفیت میں پل رہا تھا، جیسے دریا کے بیچ ایک پتھر، جسے نہ لہریں بہا سکیں اور نہ کنارے اپنی طرف کھینچ سکیں۔

روحان کی ماں شگفتہ بظاہر ایک خوش شکل مگر کُند ذہن عورت تھی۔ اس کی آنکھوں میں وہ بصیرت کبھی نہ تھی جو ایک عورت کو گھر بسانے کے لیے چاہیے ہوتی ہے۔ نہ اسے گھریلو ذمے داریوں سے لگاؤ تھا، نہ گھر کے کام کاج کا سلیقہ، اور نہ ہی دین و دنیا کی سوجھ بوجھ۔ اسے نہ عبادت کا ذوق تھا نہ علم کا شوق۔ وقت ملتا تو یا تو محلے کی عورتوں میں بیٹھ کر فضول باتوں میں گزار دیتی یا لمبے لمبے خواب دیکھتی جو حقیقت سے ہمیشہ دور رہتے۔

وہ گھر کے مسائل کو کبھی اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتی تھی۔ کھانا پکانے سے جھجکتی، صفائی ستھرائی سے بھاگتی اور بچوں کی پرورش کو بھی محض ایک بوجھ سمجھتی۔ دین کی بات آتی تو لاعلمی دکھاتی، دنیاوی معاملات میں بھی وہ ایک تماشائی کی طرح تھی جسے نہ کچھ سمجھنا تھا نہ سنبھالنا۔ اس کا بس اتنا ماننا تھا کہ سب کچھ خودبخود چلتا رہتا ہے، اور اگر کچھ نہیں چل رہا تو یہ مرد کی کمی ہے، عورت کی نہیں۔

ایسی ماں کے زیرِ سایہ پلنے والے بچے، خاص طور پر روحان، ہمیشہ ایک خلا میں جی رہے تھے۔ انہیں کبھی وہ تربیت نہ ملی جو کردار کو مضبوط کرتی ہے، اور نہ وہ محبت جو دل کو سکون دیتی ہے۔ روحان اپنی ماں کے بے نیاز رویے کو دیکھ دیکھ کر اندر ہی اندر ٹوٹتا رہا۔ اس کی ماں کا دل نہ گھر سے جڑا، نہ دین سے، اور نہ دنیا سے۔

شگفتہ اکثر کہتی

"مجھے تو شادی کا مطلب ہی کبھی سمجھ نہیں آیا، نہ ہی یہ گھر مجھے کبھی اپنا لگا۔"

یہ جملے روحان کے کانوں میں بار بار گونجتے۔ وہ سوچتا کہ اگر اس کی ماں نے گھر کو قبول نہیں کیا تو پھر بچے کس ماحول میں بڑے ہوں گے؟ مگر بچہ کب اتنی بڑی باتوں کو سمجھ پاتا ہے؟ وہ تو صرف یہ جانتا تھا کہ اس کے گھر میں سکون کی کمی ہے۔

وقت گزرتا گیا۔ فراز کی کامیابیاں خاندان میں فخر بننے لگیں۔ بہنیں اپنی معصوم ضدوں اور نخرے کے ساتھ لاڈلی سمجھی جاتیں۔ مگر روحان ہمیشہ پیچھے رہ گیا۔ جیسے وہ صرف موجود ہے، مگر کسی کے لیے ضروری نہیں۔ ماں اپنی دنیا میں، باپ اپنی مجبوریاں ڈھونے میں اور دادی اپنی پرانی روایات میں کھوئی ہوئی۔ ایسے میں روحان کی زندگی کا آغاز ایک ایسے سفر کی طرح ہوا جو روشنی کے بغیر تھا، جہاں ہر موڑ پر تنہائی، محرومی اور سوالات اس کا انتظار کرتے تھے۔

یہ کہانی دراصل اسی سفر کی ہے، جہاں ایک عام سا لڑکا اپنے اندر کے زخموں کے ساتھ بڑا ہوتا ہے اور زندگی کی کٹھنائیوں کا سامنا کرتا ہے۔

گھر میں سب کچھ ایک معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ بچوں کی ہنسی، شگفتہ کی مصروفیات، سلیم کی محنت اور بزرگوں کی دعائیں—یہی اس چھوٹے سے گھر کی رونق تھی۔ مگر زندگی کبھی ایک جیسی نہیں رہتی۔ ایک دن ایسا آیا جب اس گھر کا ستون، سلیم کی ماں، اچانک بیماری کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئی۔ ان کی وفات نے پورے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ ایک ایسی عورت تھیں جن کے وجود سے پورا گھر جڑا ہوا تھا۔ ان کی دعاؤں اور نصیحتوں سے ہر فرد کو سہارا ملتا۔ ان کے جانے کے بعد یوں لگا جیسے گھر کے صحن سے سایہ چھن گیا ہو۔

سلیم اپنی ماں کا سب سے لاڈلا بیٹا تھا۔ جب وہ دنیا سے رخصت ہوئیں تو اس کی آنکھوں میں وہ خالی پن آ گیا جو کبھی پر نہ ہو سکا۔ اس نے دن رات اپنے دکھ کو چھپانے کی کوشش کی، مگر اندر سے وہ ٹوٹ چکا تھا۔ شگفتہ کے لیے بھی یہ صدمہ کم نہ تھا۔ ساس اور بہو کے بیچ محبت کا رشتہ تھا۔ شگفتہ اکثر اپنی مشکل گھڑیوں میں ان سے مشورہ لیا کرتی۔ اب وہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا تھا۔

گھر ابھی ماں کی موت کے دکھ سے سنبھلا بھی نہ تھا کہ دوسرا اور زیادہ ہولناک سانحہ آن کھڑا ہوا۔ روحان کا دوسرا نمبر والا بھائی، معصوم انیس، جو ابھی صرف پانچ سال کا تھا، اچانک بیمار پڑ گیا۔ پہلے پہل تو سب نے سمجھا کہ یہ کوئی عام بخار ہے، مگر جب اس کی حالت بگڑتی گئی اور ہسپتال کے دورے بڑھنے لگے تو حقیقت کھلنے لگی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ انیس خون کے سرطان میں مبتلا ہے۔ یہ خبر پورے خاندان پر قیامت بن کر گری۔

شگفتہ کا کلیجہ پھٹ گیا۔ وہ چھوٹے بیٹے کو روز آنکھوں کے سامنے کمزور ہوتے دیکھتی اور کچھ نہ کر پاتی۔ کبھی انیس کے سر پر ہاتھ پھیرتی تو کبھی اپنی آنکھوں میں چھپے آنسو صاف کر لیتی کہ بچے کو کچھ محسوس نہ ہو۔ مگر معصوم بچے کو بھی احساس تھا کہ اس کے ساتھ کچھ برا ہو رہا ہے۔ وہ اکثر آہستہ آواز میں ماں سے پوچھتا،

"امی، میں ٹھیک ہو جاؤں گا نا؟"

شگفتہ اسے گلے سے لگا کر کہتی، "ہاں بیٹا، ضرور۔" مگر اس کی آنکھوں میں وہ یقین نہ ہوتا جو ایک ماں کی زبان پر ہونا چاہیے تھا۔

مہینوں کی بیماری کے بعد ایک دن وہ لمحہ بھی آ گیا جس سے سب ڈرتے تھے۔ انیس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔ اس دن گھر پر ایسا سناٹا چھایا کہ جیسے زندگی رک گئی ہو۔ بچوں کے کھیلنے کی آوازیں غائب ہو گئیں، صرف رونے اور سسکنے کی آوازیں باقی رہ گئیں۔

انیس کی موت نے شگفتہ کو اندر سے توڑ دیا۔ وہ ذہنی طور پر بکھر گئی۔ کبھی گھنٹوں خاموش بیٹھی رہتی، کبھی اچانک بولنے لگتی جیسے اپنے دکھ کو لفظوں میں نکالنے کی کوشش کر رہی ہو۔ وہ دنیا اور دین دونوں سے غافل ہو گئی۔ نہ نماز رہی نہ روزہ، نہ گھر کی فکر رہی نہ بچوں کی پرورش کا خیال۔ وہ ایک خالی جسم کی مانند ہو گئی تھی جس میں روح جیسے نکل گئی ہو۔

ایسے میں سلیم نے خود کو سنبھالا اور گھر کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اس نے بچوں کی پرورش کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ وہ دن رات محنت کرتا، مگر ساتھ ساتھ کوشش کرتا کہ بچوں کی کمی محسوس نہ ہونے دے۔ مگر روحان کے لیے یہ سب برداشت کرنا آسان نہ تھا۔ وہ نہ پڑھائی میں اچھا رہا نہ زندگی کی دوڑ میں کبھی اپنے بھائی فراز کا ہمسر بن سکا۔

گھر میں اس کی ناکامی اکثر زبانوں پر آتی۔ سب کو لگتا کہ وہ کمزور اور ناکارہ ہے، مگر کوئی یہ نہ سمجھ پایا کہ اس کے دل میں کتنے زخم ہیں۔ دادی کی موت، بھائی کی جدائی اور ماں کی بے بسی—یہ سب اس کے ننھے ذہن پر بوجھ بن گئے۔ روحان کے لیے بچپن خوشیوں کا نہیں بلکہ المیوں کا دوسرا نام بن گیا۔

وقت کا پہیہ رکتا نہیں۔ بچے بڑے ہونے لگے اور ہر ایک نے اپنی اپنی راہ تلاش کرنا شروع کر دی۔ فراز، جو شروع ہی سے محنتی اور ذہین تھا، تعلیم میں آگے بڑھتا گیا۔ وہ اسکول میں ہمیشہ نمایاں نمبر لیتا، اساتذہ کی تعریفیں سمیٹتا اور سب کا لاڈلا بنا رہتا۔ جب وہ کالج پہنچا تو نہ صرف تعلیم میں کمال دکھایا بلکہ آگے چل کر استاد بن گیا۔ خاندان بھر کے لوگ فراز کو دیکھ کر فخر محسوس کرتے تھے۔ اس کی کامیابی کو ہر محفل میں سراہا جاتا اور اس کی مثال دی جاتی۔

دوسری طرف روحان تھا۔ اس کی قسمت کا سفر فراز جتنا آسان نہ تھا۔ وہ بمشکل میٹرک پاس کر سکا۔ پڑھائی اس کے لیے ہمیشہ ایک مشکل کام رہی تھی۔ گھنٹوں کتابوں کے ساتھ بیٹھنے کے باوجود اس کا ذہن الجھ جاتا، اور نتائج ہمیشہ کمزور رہتے۔ میٹرک کے بعد اس نے مزید تعلیم جاری رکھنے کے بجائے ایک تین سالہ ڈپلومہ کیا، تاکہ کم از کم اپنے مستقبل کے لیے کوئی ہنر حاصل کر سکے۔ مگر معاشرے کی آنکھوں میں تعلیم کے ڈگریاں ہی سب کچھ سمجھی جاتی ہیں، ہنر نہیں۔

سلیم، جو ایک باپ کی حیثیت سے اپنے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا تھا، مگر اس کے دل میں فراز کے لیے فخر اور روحان کے لیے مایوسی چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ وہ اکثر محفلوں میں بڑے بیٹے کی کامیابیوں کا ذکر کرتا، جبکہ روحان کی موجودگی میں اس پر طنزیہ جملے کہے بغیر نہ رہتا۔

"تم کبھی اپنے بھائی جیسے لائق نہیں ہو سکتے!"

یہ جملہ روحان کے کانوں میں کسی خنجر کی طرح پیوست ہو جاتا۔ وہ چاہ کر بھی اپنے والد کو یہ احساس نہ دلا سکا کہ ہر انسان کی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ روحان کی آنکھوں میں بار بار نمی تیرنے لگتی مگر وہ خاموش رہتا۔

زندگی نے روحان کو ایک اور کڑی حقیقت کا سامنا کروایا۔ باپ نے نیا گھر بنوانے کا فیصلہ کیا۔ یہ گھر گویا خاندان کے خوابوں کا مرکز تھا۔ روحان نے چاہا کہ وہ بھی اس میں اپنا حصہ ڈالے، تاکہ شاید باپ کے دل میں اس کے لیے جگہ بن سکے۔ وہ دن رات محنت کرنے لگا۔ صبح سویرے مزدوروں کے ساتھ کھڑا ہو جاتا، اینٹیں ڈھوتا، سیمنٹ کی بوریاں اپنے کندھوں پر اُٹھاتا، بجری اور ریت کے ڈھیر پر کدال مارتا۔ دھوپ میں پسینے سے بھیگتا، ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے، کمر درد سے جھک جاتی مگر وہ ہمت نہ ہارتا۔

اسے امید تھی کہ ایک دن والد اس کی محنت کو دیکھیں گے اور فخر سے کہیں گے:

"ہاں، یہ میرا بیٹا ہے۔"

مگر افسوس، یہ دن کبھی نہ آیا۔ سلیم کی نظر ہمیشہ فراز کی کامیابیوں پر رہی۔ روحان کی محنت کو وہ معمولی مزدوری سمجھ کر نظر انداز کر دیتا۔ اگر کوئی مہمان آتا تو فراز کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے، اور روحان کی بات آتے ہی لبوں پر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ طنز اتر آتا۔

"اسے پڑھائی کا شوق ہی کہاں تھا۔"

یا

"یہ تو بس چھوٹے موٹے کام کر لیتا ہے۔"

یہ الفاظ روحان کے دل کو زخمی کرتے، مگر وہ اپنے زخم کسی کو نہ دکھاتا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر جواب دے گا تو باپ کی نظر میں اور بھی گر جائے گا۔ اس نے خاموشی کو اپنی زبان بنا لیا۔

روحان اکثر رات کو اکیلا بیٹھ کر سوچتا، "کاش میں بھی اپنے بھائی جیسا ہوتا… کاش ابو مجھ پر بھی ویسے ہی فخر کرتے جیسے فراز پر کرتے ہیں۔" لیکن پھر دل سے ایک آواز آتی، "محنت کبھی ضائع نہیں جاتی۔ ایک دن ضرور وقت بدلے گا۔"

یوں روحان کی زندگی دن بہ دن ایک کٹھن امتحان بن رہی تھی۔ ایک طرف بھائی کی کامیابیاں، دوسری طرف باپ کے طعنے اور بے اعتنائی۔ مگر وہ ہار ماننے والوں میں سے نہ تھا۔ اگرچہ اس کے دل پر ان الفاظ کے داغ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئے، مگر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی محنت جاری رکھے گا، چاہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، سمجھے یا نہ سمجھے۔

یہ واقعہ روحان کی زندگی کا وہ موڑ تھا جس نے اس کی شخصیت کو جڑ سے ہلا ڈالا۔

اس نے پہلی بار دل کے کسی کونے میں محبت کی شمع روشن کی تھی۔ وہ لڑکی اس کے خوابوں کی دنیا تھی—سادگی میں بھری ہوئی، نرم لہجے میں بات کرنے والی، اور آنکھوں میں امید جگانے والی۔ روحان کے دن اور راتیں اس کے گرد گھومنے لگیں۔ وہ معمولی سا خوش لباس پہن لیتا تو روحان کو لگتا جیسے دنیا کی سب سے حسین ہستی اس کے سامنے ہے۔ اسے دیکھنے کے بعد باقی سب چیزیں بے معنی ہو جاتی تھیں۔

روحان اپنے دل میں بار بار یہی سوچتا:

"شاید اب زندگی نے میرے لیے بھی کوئی خوشی رکھی ہے۔ شاید یہ وہ شخص ہے جو مجھے مکمل کرے گا، جو میری تنہائیوں کو بانٹے گا۔"

"بعض دفعہ انسان ہنستا ہے تاکہ دنیا کو یقین دلائے کہ وہ ٹھیک ہے، حالانکہ اس کا دل چیخ رہا ہوتا ہے۔"

وہ لڑکی اس کی باتوں پر ہنستی، کبھی دلجوئی کرتی، اور کبھی اپنے خواب سناتی۔ روحان ان خوابوں میں اپنے آپ کو شامل کر لیتا۔ اس نے دل ہی دل میں کئی امیدیں باندھ لیں: ایک چھوٹا سا گھر، مشترکہ خواب، اور محبت بھری زندگی۔

مگر پھر وہ دن آیا جس نے روحان کی روح میں ایسا زخم دے دیا جو کبھی نہیں بھرا۔ اچانک خبر ملی کہ وہ لڑکی کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔

روحان کے لیے یہ لمحہ ناقابلِ برداشت تھا۔ اسے لگا جیسے زمین اس کے قدموں تلے سے نکل گئی ہو۔ وہ اپنی سانسوں کی آواز بھی سن رہا تھا اور دل کے اندر ایک عجیب سی خالی گونج۔ وہ گھنٹوں کمرے میں بیٹھا بس یہی سوچتا رہا کہ ایسا کیوں ہوا؟ آخر وہ کس چیز میں کم تھا؟ اس نے تو اپنی پوری سچائی، پوری محبت اس کے قدموں میں رکھ دی تھی۔ پھر بھی وہ کسی اور کے ساتھ کیسے جا سکتی تھی؟

یہ صدمہ روحان کو توڑ کر رکھ گیا۔ اس کے بعد وہ لوگوں سے کترانے لگا۔ محفلوں میں بیٹھنے کے بجائے تنہائی کو ترجیح دینے لگا۔ کھڑکی کے پاس بیٹھ کر گھنٹوں سوچتا رہتا۔ کبھی خاموش آنکھوں سے بہتے آنسو اس کی کیفیت بیان کر دیتے۔

گھر میں بھی اس کی حالت مزید بگڑنے لگی۔ والد کی سخت باتیں اور بھائی سے تقابل کے طعنے جلتی پر تیل کا کام کرتے۔ ماں اپنی دنیا میں گم تھی۔ کوئی بھی ایسا نہ تھا جو روحان کے دل کی گہرائیوں کو سمجھ پاتا۔

بے روزگاری کے دن لمبے ہونے لگے۔ چھوٹے چھوٹے کام تلاش کرنے کے باوجود اسے کامیابی نہ ملتی۔ وہ اکثر خود سے کہتا:

"محبت بھی کھو دی، سکون بھی… اب بچا ہی کیا ہے میرے پاس؟"

وقت گزرنے کے ساتھ یہ درد ایک بیماری میں بدلنے لگا۔ روحان کے دل و دماغ پر ایک بوجھ سا سوار رہتا۔ کبھی وہ بے سبب ہنسنے لگتا، کبھی گھنٹوں روتا رہتا۔ کبھی سوچتا شاید وہ پاگل ہو رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ نظرانداز ہونے کے زخم کو سہہ نہ سکا۔

محبت کا کھونا اور زندگی کے ہر محاذ پر ناکامی… یہ وہ مقام تھا جہاں سے روحان کا سفر ایک عام لڑکے سے ایک ٹوٹے ہوئے انسان کی طرف مڑ گیا۔

کیونکہ حقیقت یہی ہے:

انسان سب کچھ سہہ لیتا ہے، مگر نظرانداز ہونا… وہ زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔

روحان نے سوچا تھا کہ اگر وہ فیصل آباد جائے تو شاید اُس کی زندگی بدل جائے۔ ایک دن اُس نے ہمت کر کے بڑے بھائی سلیم سے کہا کہ وہ فیصل آباد جا کر نوکری تلاش کرنا چاہتا ہے۔ بھائی نے پہلے تو سختی سے انکار کیا مگر روحان کے اصرار اور بار بار کے وعدوں پر بالآخر اجازت دے دی۔ اجازت ملنے کے بعد اُس کے دل میں ایک نئی اُمید جاگی۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید یہ سفر اُس کے دکھوں کا علاج ثابت ہوگا۔

فیصل آباد پہنچ کر اُس نے خوابوں کی دنیا اور حقیقت میں بڑا فرق دیکھا۔ شہر کی چمکتی سڑکیں، ہجوم اور بڑی بڑی عمارتیں اُسے متاثر تو کرتی تھیں، لیکن ان سب کے بیچ وہ پہلے سے بھی زیادہ تنہا محسوس کرنے لگا۔ اُس نے روزگار کے چھوٹے چھوٹے کام تلاش کیے۔ کبھی ہوٹل پر برتن دھونے لگ جاتا، کبھی کسی دکان پر سیلز مین کا کام کر لیتا، مگر جہاں بھی جاتا لوگ اُس کی سادگی اور ناتجربہ کاری کا فائدہ اُٹھا لیتے۔ کبھی اُسے پوری اُجرت نہ ملتی، کبھی زیادہ کام کروا کے کچھ بھی نہ دیا جاتا۔ اکثر شام کے وقت وہ تھکا ہارا شہر کے کسی کونے میں بیٹھ کر سوچتا کہ آخر اُس کی تقدیر اتنی بے رحم کیوں ہے۔

انہی دنوں اُس کی ملاقات عائشہ سے ہوئی۔ عائشہ ایک خوش گفتار، دلکش اور باتونی لڑکی تھی۔ اُس کے لہجے کی مٹھاس روحان کے زخمی دل کے لیے مرہم ثابت ہوئی۔ وہ اکثر اُس سے ہمدردی جتاتی اور کہتی کہ زندگی کو خوشی سے جینا چاہیے۔ روحان کے لیے یہ سب کچھ ایک خواب جیسا تھا۔ برسوں بعد اُسے لگا جیسے کوئی ہے جو اُس کی تنہائی کو سمجھتا ہے۔ رفتہ رفتہ عائشہ اُس کی زندگی کا مرکز بن گئی۔

عائشہ نے محبت کے وعدے کیے، خواب دکھائے اور یہاں تک کہا کہ اگر کچھ پیسے ہوں تو وہ دونوں شادی کر کے نئی زندگی شروع کر سکتے ہیں۔ روحان نے پہلے ہچکچاہٹ محسوس کی مگر پھر اُس نے اپنی ساری محنت کی کمائی اُس کے حوالے کر دی۔ اُس نے سوچا کہ یہ قربانی اُس کے لیے خوشیوں کی صبح لے کر آئے گی۔ مگر حقیقت کچھ اور تھی۔ پیسے ملنے کے بعد عائشہ کے رویے بدلنے لگے۔ وہ اُس سے کترانے لگی اور پھر ایک دن اچانک غائب ہو گئی۔

یہ صدمہ روحان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ جو پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، اب اندر سے بالکل خالی ہو گیا۔ وہ رات بھر جاگتا اور خود کو کوستا کہ کیوں ہر بار لوگ اُس کا فائدہ اُٹھا لیتے ہیں۔ اُس کی آنکھوں سے امید کی روشنی مٹ گئی۔ محبت، اعتماد اور خواب—سب کچھ جیسے کسی نے اُس کے وجود سے چھین لیا ہو۔

وہ دن بھی عجیب تھا جب روحان مسلسل آوارہ گردی کرتے کرتے شہر کی گلیوں اور بازاروں سے ہوتا ہوا ایک دربار کے صحن میں جا بیٹھا۔ اس کے چہرے پر تھکن کی ایسی پرچھائیاں تھیں جیسے برسوں سے اُس نے سکون کی نیند نہ لی ہو۔ گرد و غبار سے اٹے کپڑے، بکھرے بال اور بجھی آنکھیں اُس کے اندر کے بکھراؤ کی گواہی دے رہی تھیں۔ دربار کے صحن میں لوگ دعائیں مانگ رہے تھے، کچھ ذکر کر رہے تھے، کچھ پھول اور چادریں چڑھا رہے تھے۔ مگر روحان ان سب سے بے خبر، ایک کونے میں جا کر پتھر کے فرش پر بیٹھ گیا۔ نہ کوئی دعا، نہ کوئی فریاد—بس خاموشی۔

یہ خاموشی عام خاموشی نہ تھی؛ یہ اُس دل کی خاموشی تھی جس نے سب کچھ سہہ لیا ہو۔ اُس کی آنکھوں میں عجیب خالی پن تھا، جیسے زندگی کی ہر کہانی، ہر خواب اُس کے اندر سے چھین لیا گیا ہو۔ وہ دن رات وہیں بیٹھا رہتا، کبھی دیوار کو گھورتا، کبھی صحن کے درمیان جلتی ہوئی موم بتیوں کو۔ زائرین اُسے دیکھ کر اندازے لگاتے، کچھ اسے مجذوب سمجھتے، کچھ دیوانہ۔ کوئی اُس کے قریب آ کر خیرات رکھ جاتا تو وہ ہاتھ تک نہ بڑھاتا۔ وہ خاموشی اب اُس کی پہچان بن گئی تھی۔

گھر والے مہینوں تک اُس کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔ گاؤں میں خبر پھیل گئی کہ روحان غائب ہو گیا ہے۔ بھائی سلیم اور بہنیں ہر دروازہ کھٹکھٹاتے، ہر رشتہ دار سے پوچھتے۔ آخرکار کسی نے بتایا کہ فیصل آباد کے ایک دربار کے صحن میں ایک شخص اکثر بیٹھا رہتا ہے جو روحان جیسا لگتا ہے۔ یہ سن کر سلیم تیزی سے وہاں پہنچا۔

جب اُس نے دربار کے صحن میں روحان کو دیکھا تو آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ بھائی نے آگے بڑھ کر اُسے آواز دی:

"روحان…! یہ تُو ہے؟"

مگر روحان نے سر نہیں اُٹھایا۔ وہ یونہی چپ چاپ بیٹھا رہا، جیسے آواز اُس کے کانوں تک پہنچی ہی نہ ہو۔ سلیم نے اُسے گلے لگایا تو وہ نہ رویا، نہ کچھ بولا—بس پتھر کی طرح بے حس و حرکت رہا۔ اُس لمحے سلیم کو اندازہ ہوا کہ روحان اب پہلے جیسا نہیں رہا۔

بہت منت سماجت اور زور زبردستی کے بعد گھر والے اُسے واپس لے آئے۔ مگر گھر پہنچ کر بھی اُس کی حالت نہ بدلی۔ وہ کم بولتا، زیادہ تر خاموش رہتا۔ کبھی گھنٹوں دیوار کو دیکھتا رہتا، کبھی بغیر مقصد کے کمرے میں چلتا رہتا۔ اُس کی خاموشی سب کو ڈرا دیتی تھی۔ شگفتہ ماں کے بعد پہلے ہی شدید صدموں کا شکار تھی، اب روحان کی یہ حالت دیکھ کر مزید کمزور ہو گئی۔

آخرکار یہ طے ہوا کہ اُسے ماہرِ نفسیات کے پاس لے جایا جائے۔ شروع میں روحان جانے کو تیار نہ تھا، مگر بھائی زبردستی اُسے کلینک لے گیا۔ ڈاکٹر نے بہت دیر تک اُسے خاموش دیکھا، پھر نرمی سے سوال کیے۔ پہلے تو روحان نے لب تک نہ ہلایا۔ لیکن ایک لمحہ آیا جب اُس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور برسوں کا درد جیسے ایک ہی لمحے میں زبان پر آ گیا۔

وہ بار بار یہی کہتا رہا:

"لوگ مجھے چھوڑ دیتے ہیں… کوئی میرا نہیں بنتا… سب مجھے دھوکہ دیتے ہیں۔"

ڈاکٹر نے اُس کی باتیں تحمل سے سنیں۔ پہلی بار روحان نے دل کھول کر اپنی زندگی کے زخم سنائے—ماں کی موت، بھائی کی بیماری، محبت کے دھوکے، اور وہ لمحے جب اُس نے تنہائی کو اپنی قسمت سمجھ لیا تھا۔ اُس کے الفاظ ٹوٹے پھوٹے تھے مگر ہر جملہ دل دہلا دینے والا تھا۔

یہ پہلا موقع تھا جب اُس نے اپنے درد کو الفاظ دیے۔ اُس لمحے گویا اُس کے سینے کا بوجھ ہلکا ہوا، مگر ساتھ ہی سب کو اندازہ ہو گیا کہ یہ زخم اتنے گہرے ہیں کہ ایک دن میں نہیں بھریں گے۔

روحان کی کہانی ایک عام کہانی نہیں تھی۔ یہ ان ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کی کہانی تھی جن کے خواب ان کی آنکھوں میں ہی مرجھا جاتے ہیں، جو زندہ تو ہوتے ہیں لیکن اندر سے ٹوٹ کر بکھر چکے ہوتے ہیں۔ اس کے بہنوں کی شادیوں پر ہر کوئی خوش تھا۔ مہندی کی رات رنگوں اور قہقہوں سے بھری ہوئی تھی، ولیمے پر مہمان جھوم رہے تھے۔ لیکن اس تمام ہنگامے کے بیچ روحان ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا، اُس کی نظریں تو سب پر تھیں مگر دل میں ایک طوفان چل رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ سب کے نصیب کیسے سنور گئے، لیکن اُس کی باری کب آئے گی؟

جب کبھی کوئی رشتہ دار یا عزیز اُس کی شادی کا ذکر چھیڑ دیتا تو گھر والوں کے چہروں پر ایک عجیب سی خاموشی طاری ہو جاتی۔ کچھ دیر بعد کوئی بہانہ تراش لیتا—"ابھی کام ٹھیک نہیں، وقت آنے پر دیکھ لیں گے"۔ لیکن وہ ایک جملہ، وہ ایک زہر بھری بات ہمیشہ اس کے دل کو چھلنی کر دیتی:

"کون اپنی بیٹی ایسے لڑکے کو دے گا جس کے پاس نہ پیسہ ہے نہ مستقبل؟"

یہ الفاظ روحان کے دل پر صرف چوٹ نہیں کرتے تھے، یہ تو اس کی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کو بھی جلا دیتے تھے۔ رات کو جب سب سو جاتے، وہ جاگتا رہتا۔ چھت کو گھورتا اور اپنے آپ سے سوال کرتا:

"کیا واقعی دولت ہی سب کچھ ہے؟ کیا انسان کی عزت، اس کا کردار، اس کی سچائی کچھ بھی معنی نہیں رکھتی؟"

فیکٹری میں معمولی سی نوکری اُس کے حصے میں آئی۔ صبح سے شام تک مشینوں کا شور اُس کے کانوں میں گونجتا رہتا، لیکن اس شور کے پیچھے اُس کی تنہائی کی آواز کہیں دب کر رہ جاتی۔ پسینے میں بھیگی قمیض، دھول سے اٹے ہاتھ، اور خالی جیب—یہی اس کی زندگی کی حقیقت تھی۔ وہ پیسہ تو کما لیتا، لیکن وہ سکون، وہ تسلی، وہ محبت جس کی وہ آرزو کرتا تھا، وہ کہیں دور رہ گئی۔

گھر وہ جگہ ہے جہاں سکون ملے، اگر وہی قید خانہ بن جائے تو انسان کا دل بھٹکتا پھرتا ہے۔"

اکثر اُس کے ذہن میں پرانی یادیں تازہ ہو جاتیں۔ پہلی محبت، وہ جھوٹے خواب، وہ دھوکہ… اور پھر بہنوں کی شادیاں۔ یہ سب کچھ ایک فلم کی طرح اُس کی آنکھوں کے سامنے چلتا رہتا۔ وہ سوچتا:

"کیا میں واقعی اتنا بےکار ہوں کہ کوئی مجھے قبول نہیں کرے گا؟"

دن گزرتے گئے، مگر اُس کی آنکھوں کے خواب مدھم پڑتے گئے۔ اب وہ مستقبل کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ چکا تھا۔ اُس کی زندگی کا مقصد بس اتنا رہ گیا تھا کہ صبح اُٹھے، فیکٹری جائے، مزدوری کرے اور رات کو تھکا ہارا واپس آ جائے۔ لیکن اس تھکن کے باوجود اُس کا دل کبھی سکون نہیں پاتا تھا۔ وہ ایک ایسا قیدی بن گیا تھا جسے زندگی کی جیل میں صرف وقت کاٹنا تھا۔

وہ اکثر اپنے دل میں کہتا:

"کچھ لوگ جیتے جی مر جاتے ہیں۔ باقی عمر صرف سانس لینے میں گزار دیتے ہیں۔"

روحان بھی انہی میں سے ایک تھا۔ اُس کی آنکھیں اب خواب نہیں دیکھتی تھیں۔ وہ قہقہے نہیں لگاتا تھا۔ اُس کی مسکراہٹ مصنوعی ہو چکی تھی، صرف دوسروں کو دکھانے کے لیے۔ اندر سے وہ مکمل طور پر خالی تھا۔

دوست اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ گئے، بہنیں اپنے گھروں میں خوشی خوشی بس گئیں۔ لیکن روحان کا وجود جیسے ایک بوجھ بن گیا۔ وہ اکثر گلی کے نکڑ پر بیٹھا بچوں کو کھیلتے دیکھتا، اور سوچتا کہ کبھی وہ بھی اتنے ہی معصوم خواب دیکھتا تھا۔ لیکن وقت نے اُس کے خوابوں کو نوچ ڈالا تھا۔

کبھی کبھی وہ سوچتا کہ کاش اُس کے پاس بھی کوئی ایسا ہوتا جو اُس کی بات سنے، اُس کی خاموشیوں کو سمجھے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ اُس کی باتیں سب کو بوجھ لگتیں۔ وہ آہستہ آہستہ سب سے الگ تھلگ ہو گیا۔ گھنٹوں خاموش بیٹھا رہتا، جیسے زندگی کے سفر سے تھک چکا ہو۔

اس کا انجام وہی ہوا جو اکثر ایسے لوگوں کا ہوتا ہے۔ زندہ رہا مگر جیتا نہ رہا۔ وہ سانس لیتا تھا، چلتا پھرتا تھا، کام کرتا تھا، لیکن اس کی روح کب کی مر چکی تھی۔ اُس کے خواب قبر کے اندھیروں میں دفن ہو گئے تھے اور باقی زندگی صرف جسم کی مشینری کو چلانے میں گزر گئی۔

"پاگل وہ نہیں جو ہنستا اور بولتا رہے، پاگل وہ ہے جو دوسروں کے درد کو سمجھنے سے انکار کر دے۔"

روحان کی کہانی پڑھنے والے کے دل میں یہی احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو بظاہر زندہ ہیں مگر اندر سے ٹوٹ کر بکھر چکے ہیں۔ وہ مسکراتے ہیں، محنت کرتے ہیں، سب کے ساتھ رہتے ہیں، مگر اپنی زندگی کی اصل خوشیوں سے محروم رہتے ہیں۔

Written by: Kanza Imran Mughal

Sometimes life gives a person such pain that the soul keeps carrying it for centuries.This was the sentence that perfectly described Rohaan's life, as if it were a mirror of his existence.

Rohaan was the third son of his parents. His elder brother, Faraz, was known since childhood as intelligent and hardworking. The second brother, Bilal, was stubborn and short-tempered, and because of that he often gained their parents' attention. There were also four sisters, whose demands and moods the parents had to tolerate. The family had many children, but little love and peace. The home always felt heavy with struggles and burdens.

Rohaan's mother, Shagufta, was a woman who never took responsibility for her home. She was the youngest among her sisters, and because of this she never had to do housework before marriage. She had no habit of cleanliness, no skill in cooking, and no interest in running a household. After marriage, her ways remained the same. The home was often messy because she kept herself away from effort and responsibility.

Rohaan's father, Saleem, was a simple but hardworking man. From morning till evening he worked for his children, and at the same time he cared for his old mother. Since Shagufta never helped her mother-in-law or managed household duties, this load also fell on Saleem. He not only earned money but also served his sick mother. In this way, he lived under constant double responsibilities.

Saleem loved his sisters very much, because he was their only brother. Their happiness meant everything to him, and they loved him dearly in return. But this love was like a thorn in Shagufta's heart. She always felt that Saleem's real priority was his mother and sisters, not her or her children. With time, this feeling created a deep emptiness inside her.

From childhood, Rohaan saw these bitter truths of life. Sometimes his mother's carelessness, sometimes his father's patience and hard work, and sometimes his father's endless service to his grandmother. He often felt different from his siblings. He was not as intelligent as Faraz, not as stubborn as Bilal, and not as pampered as his sisters. He grew up in a middle state, like a stone in the middle of a river—neither carried away by the waves nor pulled by the shore.

Shagufta, his mother, was outwardly attractive but shallow-minded. She never had the insight needed to build a home. She was neither attached to household responsibilities nor interested in religious or worldly knowledge. She had no love for worship, no thirst for learning. If she had free time, she would either sit with neighborhood women for useless gossip, or waste hours dreaming about things far from reality.

She never saw home matters as her duty. Cooking tired her, cleaning annoyed her, and raising children felt like a burden. In matters of religion, she was ignorant; in worldly issues, she was careless. She believed that everything should run by itself, and if something failed, it was always the man's fault, never the woman's.

Under such a mother's shadow, children—especially Rohaan—grew up in a constant emptiness. They never received the training that builds strong character, nor the love that gives peace to the heart. Rohaan silently broke inside, watching his mother's indifference. Her heart was never connected to her home, nor to religion, nor even to the world around her.

Shagufta would often sigh and say, "Marriage never meant anything to me. This house has never felt like mine."

Those words would echo in Rohan's ears. He wondered: if his mother never accepted her home, what did that mean for her children? What kind of life were they supposed to build inside such walls? But he was too young to answer such questions. All he knew was that peace was missing, and love had no place.

The first tragedy arrived when Saleem's mother fell ill and passed away. Her absence was like the collapse of a pillar. She had been the soul of the home, the one whose prayers bound the family. When she left, shadows spread across the household. Saleem's eyes lost their brightness, carrying a hollow that nothing could ever fill.

Not long after, a deeper wound struck. Rohan's younger brother, Anis, a five-year-old child full of innocence, grew pale and weak. At first, they thought it was fever, but soon the doctor spoke the cruel truth: leukemia. A fatal disease. A sentence on the child's life.

Shagufta's heart shattered. She would stroke Anis's soft hair and whisper that he would get better, but her eyes betrayed her fear. The boy himself seemed to know. His small, trembling voice would ask, "Ammi… will I be alright?" She would hug him, hiding tears, saying, "Yes, my child, you will." But even a child could hear the lack of conviction.

One day, the disease claimed him. The house fell silent as if death itself had pressed its cold hand against every wall. Where once there had been laughter and play, only sobs remained.

That loss crushed Shagufta's spirit. She drifted away from faith, from her family, from her duties. She became a body without purpose, living yet not alive. Saleem, broken but resilient, took up the burden of raising the children alone. He became father and mother both, holding the family together by sheer will.

Yet Rohan was marked by this grief. He never recovered fully. He struggled in school, never matching Faraz's brilliance. His father began to show pride only in the elder son, and toward Rohan there were only sighs and comparisons. "You will never be like your brother," Saleem would often say. Each word was a knife sinking into Rohan's young heart.

Still, Rohan worked hard in silence. When Saleem decided to build a new house, Rohan carried bricks, mixed cement, lifted sacks heavier than his thin frame could bear. His hands blistered, his back bent, his body drenched in sweat under the sun. Yet he never complained. He hoped one day his father would look at him with pride. That day never came. To Saleem, these efforts were just ordinary labor, not worth praise. His eyes always turned toward Faraz's academic victories.

Time passed, and another wound opened. Rohan fell in love for the first time. The girl seemed like a ray of light in his darkened world. She laughed gently, spoke softly, and listened to his dreams. He believed she was his destiny, the one who would finally understand him. In his mind, he saw a home with her, a life of peace.

But love betrayed him. One day, she vanished, running away with another man.

The shock was unbearable. Rohan sat for hours in silence, replaying every memory, asking himself why he was never enough. His heart turned into an empty shell. He withdrew from people, choosing loneliness over gatherings. Nights passed with him staring at walls, tears rolling silently.

He thought he could escape the ghosts of his life by starting anew in Faisalabad. He begged his family for permission to move there for work. They resisted, but finally gave in. The city was dazzling with its busy streets and glowing markets, but for Rohan it was lonelier than ever. He searched for jobs, washing dishes at a hotel, selling clothes in a shop, lifting goods in a warehouse. Yet everywhere he was cheated, underpaid, taken advantage of. His innocence became his weakness.

Then came Ayesha. She spoke sweetly, smiled warmly, and filled his heart with hope again. She told him she loved him, that they could marry if only they had money to start their life together. Desperate for love, Rohan gave her all the savings he had scraped together with sweat and pain. Soon after, she disappeared. Another betrayal.

Rohan broke completely. He roamed the streets without aim, until one day he found himself in the courtyard of a shrine. He sat silently against the stone floor while around him people prayed, lit candles, and tied ribbons of hope. But Rohan prayed for nothing. His silence was louder than words. He sat there for days, staring blankly, until his family finally found him.

When his brother called his name, Rohan did not even respond. He was brought home like a shadow of himself—quiet, detached, staring into nothingness. Eventually, he was taken to a psychiatrist, where for the first time he wept openly. He spoke of betrayal, of being unwanted, of feeling like no one ever truly belonged to him. His words were broken, but his pain was clear.

Life did not ease after that. His sisters married and built their own lives. The house was filled with weddings, music, and celebration. Rohan sat quietly in a corner, watching, but inside his heart a storm raged. Whenever someone asked about his marriage, silence would fall. Everyone knew the answer: who would give their daughter to a boy with no money, no future?

At last, he found a job in a factory. Day after day, he worked among the roar of machines. His clothes soaked with sweat, his hands blackened by grease, his pockets nearly empty. He earned just enough to survive, but never enough to fill the emptiness in his soul. At night, he lay awake staring at the ceiling, asking himself if money truly defined a man, if character and kindness meant nothing at all.

His heart whispered again and again: Some people die while still alive. The rest of their days are nothing more than breathing.

Rohan was one of them. His eyes no longer dreamed, his smile no longer held warmth. To the world, he was just another worker. To himself, he was already a ghost. His friends moved on, his sisters lived happily, but he remained a man without a home inside his own skin.

He lived, but he never truly lived again. His dreams lay buried in the darkness, and his body only carried on because life demanded breath.

And so, Rohan's story becomes more than his own. It is the story of countless souls who laugh, work, and walk among us, yet inside are broken beyond repair.