Ficool

ufaq

thecursedqueen
7
chs / week
The average realized release rate over the past 30 days is 7 chs / week.
--
NOT RATINGS
1.3k
Views
Synopsis
Ufaq is a story of a girl who refuses to let the world define her limits. Born into a life where expectations were placed on her before she could even understand herself, she grows up carrying other people’s dreams instead of her own. Surrounded by doubt, pressure, and silent disappointment, she begins to lose faith — not in the world, but in herself. But when she finally realizes that her life was never meant to be a sacrifice for someone else’s wishes, she chooses to take control of her own fate. This is not a story about instant success. It is a story about falling… again and again… and still choosing to stand up. Ufaq follows her inner battles, her quiet nights filled with questions, her fear of failure, and her slow journey towards self-belief. It portrays the emotional war between love and expectations, between obedience and identity, between who she was told to be and who she wants to become. Through loneliness, broken confidence, and small acts of courage, she begins to rebuild herself — not to prove others wrong, but to finally do justice to her own existence. This novel is for every soul who has ever felt lost, unheard, or burdened by expectations. Because sometimes, the real battle isn’t outside… It’s inside. And sometimes, the first victory is choosing yourself
VIEW MORE

Chapter 1 - UFAQ_CHAPTER 1

باب اول: شروعات

میں نے یہ الفاظ تب لکھنے کے لیے اپنا قلم اٹھایا…

جب لوگ مجھے گرانا چاہتے تھے…

جب میرے اپنے گھر والے میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے…

جب ہر موڑ پر مجھے یہ احساس دلایا گیا کہ میں کمزور ہوں…

مگر آج میں اپنی ڈھال بن کر کھڑی ہوں۔

میری زندگی ایک شمع ہے جس کی ماچس اب میرے اپنے ہاتھ میں ہے۔

اب فیصلہ میرا ہے:

اسے اپنے ہاتھوں کے پسینے سے بجھا دوں…

یا صرف ایک تیلی جلا کر اسے روشنی کا دریا بنا دوں۔

لوگ اکثر سمجھتے ہیں کہ گرنے والے صرف زمین تک گرتے ہیں…

مگر وہ نہیں جانتے کہ اصل گرنا انسان کے دل کے اندر ہوتا ہے۔

جب ہمت ٹوٹ جائے…

جب آنکھوں کے خواب دھندلا جائیں…

جب اپنے ہی ساتھ چھوڑ دیں…

تب انسان صرف گرتا نہیں…

وہ بکھر جاتا ہے۔

اور سب سے دردناک بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ آپ کے گرنے پر افسوس نہیں کرتے…

بلکہ تماشا بناتے ہیں۔

"ہم نے پہلے ہی کہا تھا…"

"اس سے ہوگا ہی کیا…"

"لڑکی ہے، زیادہ دور نہیں جا سکتی…"

ان جملوں میں چھپا زہر آہستہ آہستہ روح تک اتر جاتا ہے۔

لیکن میں نے یہی سیکھا…

کہ جب زہر حد سے زیادہ بھر جائے…

تو وہ دوا بن جاتا ہے۔

مجھے احساس ہوا کہ اگر میں بھی ان لوگوں جیسی بن گئی

جو ایک بار گر کر دوبارہ نہیں اٹھتے…

تو میری کہانی وہیں ختم ہو جاتی

جہاں ان کی شروع ہوئی تھی۔

لیکن میں نے فیصلہ کر لیا ہے

کہ میں مثال بنوں گی، مجبوری نہیں۔

زندگی ایک سمندر ہے

جس کا درد اس کی گہرائی میں چھپا ہوتا ہے۔

جو صرف کنارے پر کھڑے رہتے ہیں

وہ پانی کی حقیقت کبھی نہیں سمجھ سکتے۔

اور جو ہمت کر کے دو قدم اندر آتے ہیں…

وہ ڈوبتے بھی ہیں…

مگر وہی لوگ موتی بھی نکالتے ہیں۔

میں نے بھی اپنی زندگی کے سمندر میں قدم رکھا۔

ہاں، میں ڈوبی…

میں روئی…

میں تھکی…

میں نے اپنے ہی آنسوؤں میں اپنا سانس محسوس کیا…

مگر پھر مجھے ایک بات سمجھ آئی:

سمندر ان کا ہوتا ہے جو ڈوب کر بھی تیرنا سیکھ لیں۔

مجھے پتا چلا

کہ سب سے پہلا انسان جو تمہیں توڑنے کی کوشش کرتا ہے…

وہ دنیا نہیں ہوتی…

بلکہ تمہارا اپنا ڈر ہوتا ہے۔

وہ ڈر جو کہتا ہے:

"رہنے دو…"

"تم سے نہیں ہوگا…"

"لوگ کیا کہیں گے…"

لیکن سچ یہ ہے:

لوگ تو ہر حال میں کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں۔

اگر تم ہار جاؤ… تب بھی۔

اگر تم جیت جاؤ… تب بھی۔

تو بہتر یہ نہیں کہ

کچھ ایسا کیا جائے

کہ کم از کم تمہاری روح

تم سے شرمندہ نہ ہو؟

میں اپنے آپ سے روز ایک سوال کرتی ہوں:

"آج تم نے اپنے خواب کے لیے کیا کیا؟"

اگر جواب "کچھ بھی نہیں" ہوتا ہے…

تو وہ دن مجھے اندر سے مار دیتا ہے۔

کیونکہ خواب ایسے ہی نہیں مر جاتے…

وہ آہستہ آہستہ گھٹ کر مرتے ہیں…

روز کی چھوٹی چھوٹی لاپروائیوں سے…

اور پھر لوگ کہتے ہیں:

"اس کا نصیب ہی ایسا تھا…"

نہیں۔

نصیب ایسا نہیں ہوتا۔

نصیب بنایا جاتا ہے۔

جو گر کر نہیں اٹھتے…

ان کا مسئلہ طاقت کا نہیں ہوتا…

ان کا مسئلہ یقین کا ہوتا ہے۔

یقین: کہ وہ کچھ بن سکتے ہیں۔

یقین: کہ ان کی محنت ضائع نہیں ہوگی۔

یقین: کہ ان کا خواب جھوٹا نہیں۔

اور میں یہ چاہتی ہوں

کہ جو یہ پڑھے…

وہ اپنے اندر وہ یقین دوبارہ زندہ کرے۔

چاہے دنیا نے تمہیں تھکا دیا ہو…

چاہے تم خود سے ہار چکے ہو…

چاہے تم ابھی اندھیروں میں ہو…

مگر یاد رکھو…

صبح کبھی بیکار نہیں ہوتی…

صرف رات لمبی ہوتی ہے۔

میں آج کسی منزل پر نہیں ہوں…

میں ابھی سفر میں ہوں…

لیکن میرا سر بلند ہے۔

میری آنکھوں میں اب بھی چمک ہے۔

میرے ہاتھ اب بھی محنت کرتے ہیں۔

اور جب کوئی مجھے نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے…

تو میں دل ہی دل میں مسکرا دیتی ہوں…

کیونکہ انہیں نہیں پتا…

کہ میں وہ لڑکی ہوں

جو طوفانوں کو اپنا استاد بناتی ہے۔

گرنا کمزوری نہیں ہے…

گر کر نہ اٹھنا کمزوری ہے۔

اور جو آج گر کر نہیں اٹھ رہے

میں ان سے کہتی ہوں:

تمہارا وقت ختم نہیں ہوا۔

تمہاری کہانی ابھی زندہ ہے۔

اور تمہاری شمع ابھی بجھی نہیں۔

صرف ایک تیلی چاہیے…

اور وہ تیلی

تم خود ہو۔

وہ رات خاموش تھی…

لیکن میرے اندر طوفان تھا۔

نہ بارش ہو رہی تھی…

نہ ہوا چل رہی تھی…

پھر بھی دل کے اندر کچھ ٹوٹ رہا تھا۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے میری روح اپنے ہی سوالوں کے نیچے دب رہی ہو۔

میں چھت پر لیٹی ہوئی آسمان کو دیکھ رہی تھی۔

ستارے معمول سے زیادہ قریب لگ رہے تھے…

یا شاید میں خود بہت ٹوٹ چکی تھی اس لیے فاصلے کم محسوس ہو رہے تھے۔

اُس لمحے مجھے سب کچھ یاد آ رہا تھا…

لوگوں کے جملے…

ان کی ہنسی…

ان کے شک…

ان کی نظریں…

اور اُن نظریں میں چھپا وہ پیغام:

"تم سے کچھ نہیں بنے گا۔"

میں نے آنکھیں بند کیں

اور وہ جملہ میرے دماغ میں گونجنے لگا۔

"کچھ نہیں بنے گا…"

"کچھ نہیں بنے گا…"

"کچھ نہیں بنے گا…"

لیکن پھر…

ایک اور آواز آئی۔

آہستہ…

خاموش…

مگر مضبوط۔

"اگر کچھ نہیں بنے گا…

تو پھر تم کیوں اب بھی زندہ ہو؟"

میں چونک گئی۔

یہ آواز باہر سے نہیں آئی تھی…

یہ میرے اندر سے آئی تھی۔

اور یہ پہلا موقع تھا

کہ میرے اندر کی آواز

دنیا کی آواز پر بھاری پڑی۔

زندگی کا سب سے مشکل لمحہ

وہ نہیں ہوتا جب آپ گرتے ہو…

بلکہ وہ ہوتا ہے جب آپ کو دوبارہ کھڑا ہونا پڑتا ہے۔

کیونکہ گرنے میں درد ہوتا ہے…

لیکن دوبارہ کھڑا ہونے میں…

ہمت لگتی ہے۔

اور ہمت؟

وہ ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔

وہ کچھ لوگوں کو

ان کی تکلیف دے کر ملتی ہے۔

میں نے خود سے پوچھا:

"کیا میں بھی انہی لوگوں میں سے ہوں

جو صرف خواب دیکھتے ہیں…

لیکن ڈر کی وجہ سے سو جاتے ہیں؟"

یا میں ان میں سے ہوں

جو خواب دیکھ کر

نیند قربان کر دیتے ہیں؟

میرے سامنے میرے دو راستے تھے:

ایک آسان…

چپ رہنے والا…

اور خود کو حالات کے حوالے کرنے والا…

اور دوسرا مشکل…

اکیلہ…

لیکن میرا اپنا۔

میں نے

آنکھیں کھول کر آسمان کی طرف دیکھا

اور سرگوشی کی:

"میں مشکل والا راستہ چنوں گی۔"

اس لمحے

مجھے پہلی بار احساس ہوا

کہ مسائل صرف رکاوٹ نہیں ہوتے…

وہ تربیت بھی ہوتے ہیں۔

جو لوگ آسان زندگی جیتے ہیں

وہ اکثر کمزور رہ جاتے ہیں۔

اور جو لوگ مشکل زندگی جیتے ہیں

وہ وقت کے ساتھ فولاد بن جاتے ہیں۔

اور اُس رات

میں نے ایک وعدہ کیا…

کسی سے نہیں…

صرف خود سے…

کہ:

میں اب اپنی خاموشی کو کمزوری نہیں بناؤں گی میں اب لوگوں کی رائے کو اپنی تقدیر نہیں بناؤں گی میں اب ہر روز خود سے سوال کروں گی:

"آج میں نے اپنے خواب کے لیے کیا کیا؟"

اور اگر جواب "کچھ نہیں" ہوا…

تو وہ دن میرے لیے

ادھورا ہوگا۔

کیونکہ اب میں جان چکی ہوں…

جو لوگ اندھیروں سے ڈرتے ہیں

وہ روشنی کے قابل نہیں ہوتے۔

اور جو لوگ اندھیروں میں چلنا سیکھ لیتے ہیں

روشنی خود ان کا راستہ بناتی ہے۔

اور یہی وہ رات تھی…

جب میں نے فیصلہ کیا…

کہ میں صرف زندہ نہیں رہوں گی…

میں کچھ بنوں گی۔

اور یہ فیصلہ…

 اب واپس نہیں ہو سکتا۔

یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو گر کر اٹھتی ہے جس نے خود کو نکھارا یہ کہانی ہے اُفق کی اُفق وہ لکیر ہے

جہاں آسمان اور زمین ایک دوسرے سے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں…

لیکن حقیقت میں کبھی نہیں ملتے۔

یہ ایک دھوکہ نہیں،

یہ اصل میں امید کا فاصلہ ہے۔

اُفق وہ مقام ہے

جہاں تھکی ہوئی آنکھوں کو پھر سے خواب نظر آتے ہیں،

جہاں اندھیری رات کے بعد

روشنی کی پہلی ہلکی سی لکیر جنم لیتی ہے۔

یہ ان لوگوں کی منزل ہے

جو بار بار گرنے کے باوجود

ہمت نہیں ہارتے…

اور جو سمجھتے ہیں کہ

منزل قریب نہیں…

بلکہ مسلسل آگے بڑھنے کا نام ہے۔

اُفق صرف ایک لکیر نہیں،

یہ ایک اعلان ہے:

کہ چاہے اندھیرے کتنے ہی گہرے ہوں،کہیں نہ کہیں ایک حد ضرور ہوتی ہےجہاں روشنی تمہارا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔اُفق

............

کمرے میں ہلکی سی مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی

وہ روشنی جو رات کے آخری پہر اور صبح کے پہلے لمحے کے بیچ کہیں بھٹک جاتی ہے۔

نہ دن کی ہوتی ہے، نہ رات کی۔ بس ایک خاموش سی پہچان۔

پردے آدھے کھلے تھے۔

ہلکی ہوا سانس لے رہی تھی۔

اور میز پر رکھا لیپ ٹاپ — ابھی بھی آن تھا،

جیسے اس نے نیند کو ماننے سے انکار کر رکھا ہو۔

کمرے کے ایک کونے میں کتابیں بےترتیب تھیں،

دوسرے کونے میں خالی مگ اور چپس کے ریپر۔

کرسی پر رکھا بیگ ایسے بےجان تھا

جیسے خود بھی اسکول جانے سے بیزار ہو۔

اور بیچ میں…

وہ۔

چودہ سال کی ایک لڑکی۔

جو نیند میں بھی آدھی جاگتی رہتی تھی۔

بال اس کے چہرے پر بکھرے تھے،

آنکھوں کے نیچے ہلکا سا سایہ —

کسی ادھوری رات کا نشان۔

اس کا بستر اس کے وجود سے کچھ زیادہ ہی بےترتیب تھا۔

کمبل آدھا فرش پر،

تکیہ آدھا دیوار سے لگا ہوا،

اور وہ خود بیچ میں،

جیسے کسی خواب نے آ کر وہیں چھوڑ دیا ہو۔

الارم نہ بجے تو وہ نہیں جاگتی تھی۔

کبھی نہیں۔

اور اگر بج بھی جائے

تو بھی پہلے پانچ دفعہ

بند کرنے کے بعد۔

اس روز بھی

جب الارم کی تیز آواز نے کمرے کی خاموشی کا گلا دبوچا

تو اس نے چہرہ دوسری طرف موڑ لیا،

اور کمبل کو خود پر اور مضبوطی سے لپیٹ لیا۔

جیسے دن سے دوبارہ لڑنے کا موڈ ہی نہ ہو۔

وہ…

نیند کی حد تک سست تھی۔

اور دنیا کے معاملے میں حد سے زیادہ لاپرواہ۔

بالآخر

کافی دیر بعد

اس کی پلکیں ہلیں۔

سست۔

بےدل۔

جیسے جاگنا بھی اس پر قرض ہو۔

اس نے آنکھیں آدھی کھولیں،

اور لیپ ٹاپ کی مدھم اسکرین کو دیکھا۔

وہ اس کا موبائل نہیں تھا،

کیونکہ موبائل اس کے پاس تھا ہی نہیں۔

لیپ ٹاپ ہی اس کی دنیا تھی:

اس کی کھڑکی، اس کا پردہ،

اس کی چھت، اس کا آسمان۔

وہ آہستہ سے اٹھی،

لیکن جیسے حرکت بھی اس کے بس کی نہ ہو۔

چپل پہننا بھول گئی۔

ایک جراب پہنی، دوسری ڈھونڈتے ہوئے ہاتھ سے تکیہ گرا دیا۔

اور پھر خود ہی اسے دیکھ کر مسکرا دی۔

یہ اس کی پرانی عادت تھی —

اپنی بد نظمی پر بھی مسکرا دینا۔

ابھی صبح صحیح سے شروع بھی نہ ہوئی تھی

اور وہ پہلے ہی

اس سے تھک چکی تھی۔

اس کی امی…

کمرے کے باہر

ابھی بھی سو رہی تھیں۔

انہیں فرق نہیں پڑتا تھا

کہ وہ اسکول جائے یا نہ جائے

وقت پر جائے یا دیر سے۔

اور شاید

اسی بےپرواہی میں

وہ خود بھی ایک عجیب سی آزادی ڈھونڈ چکی تھی۔

ناشتے کی میز پر بیٹھ کر

وہ چپ چاپ

صرف بسکٹ کھاتی رہی۔

چائے ٹھنڈی تھی۔

بالکل اس دلچسپی کی طرح

جو اسے اسکول سے تھی۔

لیکن وہ شکایت نہیں کرتی تھی۔

نہ دنیا سے

نہ کسی سے۔

وہ بس خاموشی سے

چیزوں کو ایسے قبول کر لیتی تھی

جیسے سب کچھ پہلے سے طے ہو۔

راستے میں

وہ تنہا چلتی تھی۔

ہاتھوں میں کوئی موبائل نہیں۔

کوئی میسجز نہیں۔

کوئی کال نہیں۔

صرف سڑک،

ہوا،

اور اس کی بےترتیب سوچیں۔

وہ اکیلے چلنا پسند کرتی تھی۔

اکیلا کھانا بھی۔

اکیلا دیکھنا، اکیلا سننا۔

اور اس سارے اکیلے پن میں بھی

اس کے وجود میں عجیب سا سکون تھا۔

وہ لوگوں سے دور رہتی تھی۔

نہ نفرت تھی

نہ شکوہ۔

بس…

ایک فاصلہ تھا۔

جیسے اس کی روح

ابھی اس دنیا میں پوری طرح آئی ہی نہ ہو۔

اور شاید

اسی لئے اسکول میں لوگ اسے عجیب کہتے تھے۔

کچھ کہتے:

"یہ لڑکی نارمل نہیں۔"

کچھ کہتے:

"یہ سائیکو ہے۔"

اور کچھ

صرف دور سے دیکھتے

اور کبھی نزدیک آنے کی ہمت نہ کرتے۔

کیونکہ وہ

اکیلی تھی۔

اور اکیلے لوگ

ہمیشہ

لوگوں کو ڈرا دیتے ہیں۔

لیکن اسے اس سے فرق نہیں پڑتا تھا۔

وہ خود کو

ہر دن

اپنے ہی طریقے سے جیتی تھی۔

بےترتیب۔

خاموش۔

مگر اندر سے…

کچھ زیادہ ہی زندہ۔

اور وہ بھی نہیں جانتی تھی

کہ یہ خاموشی

ایک دن

اس کی پہچان کا پہلا قدم بنے گی۔

مگر ابھی نہیں…

ابھی تو وہ

صرف چودہ سال کی تھی۔؟

........

اسکول کی عمارت صبح کے دھندلے اجالے میں یوں کھڑی تھی

جیسے کوئی پرانا، تھکا ہوا وجود

جو روز ہزاروں قدموں کا بوجھ سہتا ہو

اور پھر بھی خاموش رہتا ہو۔

گیٹ کے باہر شور تھا۔

ہنستی ہوئی لڑکیاں،

چلانے والی آوازیں،

بیگوں کی زنجیریں،

اور دوستیوں کے قہقہے۔

لیکن وہ…

وہ اُس شور سے ایسے گزری

جیسے ہوا خاموشی سے دیوار کے ساتھ پھسل جائے۔

نہ کسی کو دیکھنے کی کوشش،

نہ کسی کی طرف نظر اٹھانے کا وقت۔

بس اپنے قدموں کو فالو کرنا۔

کوریڈور میں

اس کے قدم ہلکے تھے

جیسے وہ زمین کو چھونے سے ڈرتی ہو۔

بینچ پر جا کر بیٹھتے ہوئے

اس کا بیگ ہلکا سا گرا،

اور اس کے ہاتھ سے پین نیچے بیٹھنے لگا۔

وہ جھکی،

پین اٹھایا،

اور خود ہی مسکرا دی۔

چھوٹی سی، مدھم سی مسکراہٹ۔

کسی کے لیے نہیں۔

بس اپنے لیے۔

کلاس میں بچے باتیں کر رہے تھے۔

کوئی کسی سے ناراض،

کوئی کسی پر فدا،

کوئی کسی سے خفا۔

لیکن وہ سب سے الگ

ایک خاموش جزیرہ تھی۔

کھڑکی کے پاس بیٹھ کر

وہ باہر کے درخت دیکھتی رہی۔

پتے ہل رہے تھے۔

ہوا کچھ کہہ رہی تھی۔

اور پرندے…

اپنی مرضی کی آوازیں۔

اسے ہمیشہ لگتا تھا

کہ درخت بھی اکیلے ہوتے ہیں۔

اور پھر بھی کتنے پر سکون۔

ٹیچر کی آواز

کلاس کی چھت سے ٹکرا رہی تھی

لیکن وہ لفظوں کے پیچھے نہیں بھاگ رہی تھی۔

وہ صرف سنتی تھی۔

خاموشی سے۔

بغیر شور مچائے۔

اسے پڑھائی سے نفرت نہیں تھی۔

بس…

محبت بھی نہیں تھی۔

اسے چیزوں سے لڑنا نہیں آتا تھا،

نہ انہیں زبردستی اپنا بنانا۔

وہ زندگی کو

ایسے دیکھتی تھی

جیسے کوئی کھڑکی سے بارش کو دیکھے —

بغیر بھیگے۔

بریک ٹائم میں

سب لڑکیاں باہر بھاگ گئیں۔

ہنسی، چیخیں،

چپس کی آواز،

اور لطف کی بھوک۔

لیکن وہ اپنی جگہ بیٹھ رہی۔

بیگ سے بسکٹ نکالے،

اور آہستہ آہستہ چبانے لگی۔

جیسے وہ وقت کو

رفتار دینے کے حق میں ہی نہ ہو۔

اس کی میز پر

چند کرمز گرے،

اور اس نے انہیں انگلی سے ایک طرف ہٹایا۔

پھر اچانک اسے ہنسی آئی۔

کیونکہ

زندگی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔

بکھری ہوئی۔

اور وہ

ہمیشہ اسے ایک طرف ہٹانے کی کوشش میں مصروف۔

اسے شور سے ڈر نہیں لگتا تھا۔

بس

سوچ سے محبت تھی۔

وہ اکیلے بیٹھ کر

اپنے گرد ایک ہلکا سا دائرہ بنا لیتی تھی۔

نہ دیوار،

نہ پردہ۔

صرف خاموش سا فاصلہ۔

اور بچے…

اس فاصلہ کو عجیب سمجھتے تھے۔

کچھ کہتے:

"یہ خود کو بہت کچھ سمجھتی ہے۔"

کچھ کہتے:

"یہ ڈپرسیو ہے۔"

کچھ کہتے:

"یہ نارمل نہیں۔"

لیکن وہ

کچھ نہیں کہتی تھی۔

نہ دفاع۔

نہ وضاحت۔

نہ شکوہ۔

وہ صرف خود میں

خاموشی سے

زندہ رہتی تھی۔

اور شاید

اسی وجہ سے

اس کی موجودگی

لوگوں کو

خاموش کر دیتی تھی۔

جیسے خاموش چیزیں

ہمیشہ شور کرنے والوں کے لیے

سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہیں۔

وہ یہ نہیں جانتی تھی

کہ اس کا یہ انداز

ایک دن

اس کی پہچان بن جائے گا۔

مگر ابھی…

یہ سب کچھ بس

ایک بےآواز سا سفر تھا۔

اور وہ…

چپ چاپ

اس کا حصہ تھی۔

؟...........

تیسرا پیریڈ تھا۔

ریاضی۔

ٹیچر ہمیشہ کی طرح تختے کے سامنے کھڑے تھے،

ناک پر عینک،

ہاتھ میں چاک،

اور آواز میں وہی حکم۔

"خاموشی! کتاب کھولو!"

کرسیوں کی چرچراہٹ ہوئی۔

کتابیں کھلیں۔

پنسلیں تیز ہوئیں۔

اور وہ…

اپنی کاپی پر

چپ چاپ دائرے بنا رہی تھی۔

ٹیچر کی نظر اس پر پڑی۔

"تم!

کتاب کھولی ہے یا بس ایسے ہی ٹائم پاس ہو رہا ہے؟"

کلاس ہنسنے لگی۔

وہ آہستہ سے سر اٹھا کر بولی:

"سر، میں equation کو mentally solve کر رہی ہوں…

کتاب تو distract کرتی ہے۔"

ایک لمحے کو کلاس خاموش ہو گئی۔

پھر قہقہے پھوٹ پڑے۔

کچھ دل سے ہنسے۔

کچھ طنز میں۔

ٹیچر کی بھنویں چڑھ گئیں۔

"اچھا؟ تو آؤ ذرا بورڈ پر تو حل کر کے دکھاؤ!"

وہ آہستہ سے کھڑی ہوئی۔

بیگ کرسی سے ٹکرایا۔

پانی کی بوتل گر گئی۔

کچھ لڑکے پیچھے سے بولے:

"ہائے clumsy queen!"

وہ بغیر پلٹے

بورڈ کی طرف چل دی۔

چاک ہاتھ میں لیا…

اور بغیر کچھ سوچے

سوال لکھنے سے پہلے

ایک چھوٹا سا دل بنا دیا۔

پوری کلاس

ایک دم چونک گئی۔

ایک بچی نے سرگوشی کی:

"پاگل ہے… ریاضی کا سوال ہے یا love letter؟"

وہ دل کے نیچے سوال حل کرنے لگی۔

نمبر غلط ہو گئے۔

خود کو realize ہوا۔

پھر دوبارہ لکھا۔

اور آخر میں لکھا:

"It's not wrong. It's just confused. Like humans."

کلاس کا آدھا حصہ ہنس رہا تھا۔

آدھا اسے گھور رہا تھا۔

ٹیچر رُکے رہے۔

چاک ہاتھ میں۔

چند لمحے۔

"یہ فلسفہ کی کلاس نہیں ہے، محترمہ!"

وہ مسکرا دی۔

"سر، انسان جہاں جائے…

وہ اپنا فلسفہ ساتھ ہی لے جاتا ہے۔"

کلاس میں پھر ہنسی کی لہر دوڑ گئی۔

پچھلی بینچ سے کسی نے آواز دی:

"Madam philosopher!"

کسی نے کہا:

"Crushed brain!"

اور ایک نے آہستہ کہا:

"Psycho…"

وہ واپس بیٹھ گئی۔

اسے غصہ نہیں آیا۔

نہ خوشی۔

بس ایک عجیب سا مزہ۔

جیسے بارش میں بھیگ کر کسی نے چھتری کھول لی ہو۔

بریک میں وہ کوریڈور میں اکیلی چل رہی تھی۔

کینٹین کی طرف بھیڑ نہیں تھی۔

بلکل خاموش سی جگہ تھی۔

اس نے سموسہ لیا۔

اور وہاں ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر کھانے لگی۔

اچانک

ایک لڑکی اس کے پاس آئی۔

"تم واقعی عجیب ہو، تمہیں پتا ہے نا؟"

وہ سموسہ چباتے چباتے بولی:

"ہاں…

پر تم نے نوٹس لیا، یہی کافی ہے۔"

لڑکی ہنس دی۔

"لوگ تمہیں پاگل کہتے ہیں…"

وہ کندھے اچکا کر بولی:

"لوگ تو بارش کو بھی گندا کہتے ہیں…

حالانکہ وہی سب کو زندہ رکھتی ہے۔"

لڑکی نے کچھ نہیں کہا۔

بس اسے دیکھتی رہی۔

اور وہ…

اپنا سموسہ ختم کر کے

چپ چاپ چل دی۔

کسی کا دل خوش کر کے۔

کسی کا دماغ الجھا کے۔

کسی کو ہنسا کے…

اور کسی کو سوچ میں ڈال کے۔

جیسے اُس کی عادت تھی۔

ا........

بالکل — چٹھی ٹائم، بس، گلی اور پھر گھر…

مزے دار، ہلکا سا طنز، تھوڑا سا درد، اور اُس کی تنہائی کی خاموش سی گونج کے ساتھ:

اسکول کی چھٹی ہوئی تو

ہنگامہ ویسے ہی مچ گیا جیسے قید سے آزادی ملی ہو۔

کوئی دوڑ رہا تھا،

کوئی شور کر رہا تھا،

کوئی آخری بینچ پر بیٹھ کر سانس لے رہا تھا۔

اور وہ؟

وہ آہستہ آہستہ بیگ ڈال کر کھڑی ہوئی۔

جیسے اُسے کہیں پہنچنے کی جلدی ہی نہ ہو…

جیسے وقت بھی اُس سے پوچھ کر چلتا ہو۔

بس اسٹاپ پر ہمیشہ شور ہوتا تھا—

پسینے، دھول، قہقہوں اور دھکے کی عجیب سی ملی جلی بو۔

بس آئی تو

لوگ اس پر ایسے چڑھنے لگے

جیسے یہ آخری سواری ہو۔

کسی نے پیچھے سے اسے دھکا دیا۔

وہ ایک قدم آگے کو لڑکھڑائی

اور ہنستے ہوئے خود ہی بولی:

"اوف… زندگی بھی ایسی ہی دھکے دیتی رہتی ہے…"

ایک لڑکا پیچھے سے بولا:

"یہ تو خود سے بھی باتیں کرتی ہے یار…"

اور دوسرے نے کہا:

"سچی میں psycho ہے…"

وہ مسکرائی۔

بس اتنی سی نرم سی مسکراہٹ

جو اکثر لوگوں کو الجھا دیتی ہے۔

بس کے اندر اس نے کھڑکی والی سیٹ پکڑ لی۔

چہرہ ہوا کی طرف کر لیا۔

اس کے بال آگے پیچھے ہلنے لگے۔

سڑک پر دکانیں،

گاڑیاں،

لوگ،

ہر چیز تیزی سے پیچھے ہٹ رہی تھی۔

پر اس کا ذہن…

کہیں اور ہی تھا۔

وہ کھڑکی پر اُنگلی سے بھاپ پر لکیریں بنانے لگی۔

کبھی دائرہ،

کبھی ٹوٹا ہوا دل،

کبھی چھوٹا سا آسمان۔

ایک چھوٹی بچی اسے دیکھ رہی تھی۔

بچی نے پوچھا:

"آپی، آپ اکیلی کیوں رہتی ہو؟"

وہ چونکی۔

پھر ہلکہ سا ہنسی۔

"بس… شور سے دوستی نہیں ہے میری۔"

بچی نے معصومیت سے کہا:

"میں بھی اکیلی بیٹھتی ہوں۔ سب تنگ کرتے ہیں۔"

وہ اسکے سر پر ہلکا سا ہاتھ پھیر کر بولی:

"اکیلے رہنا بُرا نہیں ہوتا… بس کبھی کبھی بھاری ہو جاتا ہے۔"

بس رُکی۔

وہ اُتری۔

اس کی گلی تنگ تھی،

دیواریں اُدھڑی ہوئی،

دروازے پرانے،

اور ہوا میں ہلکی سی اداسی۔

کچھ بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔

بال اس کے قدموں کے پاس آ کر رُکی۔

ایک لڑکے نے کہا:

"بال دے دو آپی…"

وہ نے بال اٹھائی،

ان سب کو دیکھا

اور آہستگی سے بولی:

"کھیلتے رہو… وقت جلدی ختم ہو جاتا ہے…"

بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے:

"یہ تو فلم کی ہیروئن ہے!"

اور وہ

اپنی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ

گھر کی طرف بڑھ گئی۔

دروازہ کھولا۔

گھر میں خاموشی تھی۔

وہ خاموشی جو شور سے زیادہ چیختی ہے۔

امی صوفے پر لیٹی تھیں،

کمبل آدھا اوڑھا ہوا،

ٹی وی چل رہا تھا،

مگر وہ سو رہی تھیں۔

انہوں نے ایک بار بھی نہیں پوچھا:

"کیسی رہی کلاس؟"

نہ پوچھا:

"بھوک لگی ہے؟"

نہ پوچھا:

"آج کسی نے کچھ کہا؟"

اس نے بس جوتے اتارے…

اور خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف چل دی۔

اچانک اس کی بہن سامنے آ گئی۔

"پھر دیر کر دی؟

تم ہمیشہ عجیب ہوتی جا رہی ہو۔"

وہ رُکی نہیں۔

بس اتنا بولی:

"عجیب ہونا اب وقت کی ضرورت ہے…"

اور دروازہ بند کر لیا۔

کمرے میں وہی اس کا آسمان تھا۔

بیڈ،

پرانی نوٹ بک،

کھلا ہوا لیپ ٹاپ،

کھڑکی سے آتی ہلکی سی ہوا۔

اس نے بیگ ایک طرف پھینکا۔

بستر پر اوندھے منہ لیٹ گئی۔

چھت کو دیکھتی رہی۔

خاموش۔

نہ رونا۔

نہ شکایت۔

نہ چیخ۔

بس وہ سوچ…

کہ کیا واقعی وہ خوش ہے؟

یا صرف خوش ہونے کی پریکٹس کر رہی ہے؟

اور باہر کہیں دور سے

مغرب کی اذان کی آواز آئی۔

ہلکی…

نرم…

جیسے کسی نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا ہو:

"ابھی سب ختم نہیں ہوا…"

......

مغرب کی اذان ختم ہوئی…

لیکن اس کے دل کے اندر والی خاموش اذان ابھی باقی تھی۔

وہ بستر پر اوندھی لیٹی رہی۔

چھت کو دیکھتی رہی۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے چھت نہیں… اس کا انجام ہو۔

کمرے میں روشنی آہستہ آہستہ کم ہونے لگی۔

یہ وہ وقت ہوتا ہے

جب دن تھک جاتا ہے

اور رات ابھی پوری طرح جاگتی نہیں۔

اس نے آہستہ سے کروٹ بدلی۔

نظر لیپ ٹاپ پر پڑی۔

اس کا اسکرین سیور

مدھم سا جل رہا تھا

جیسے کوئی سانس روکے بھی زندہ ہو۔

وہ اٹھی۔

چپل پہنے بغیر ہی زمین پر ننگے پاؤں چل دی۔

ٹراؤزر کا کنارہ قالین سے گھسٹا ہوا۔

لیپ ٹاپ کھولا۔

اسکرین پر جو آخری فائل کھلی تھی…

وہی اس کی ڈائری تھی۔

وہی جس میں وہ

اونچی آواز میں نہیں

مگر لفظوں میں چیخا کرتی تھی۔

اس نے لکھا:

"آج پھر کسی نے کہا…

'تم عجیب ہو'

شاید وہ ٹھیک کہتے ہیں…

کیونکہ عام لوگ کبھی اتنا محسوس نہیں کرتے…

جتنا میں خاموشی میں کر لیتی ہوں…"

اس کے ہاتھ رک گئے۔

ایک لمحے کے لیے۔

اور پھر اس نے بیک اسپیس دبایا۔

نامٹا…

اور نیا لکھا:

"نہیں…

میں عجیب نہیں ہوں…

میں شاید بس زیادہ زندہ ہوں…"

اس کی آنکھوں میں ایک ہلکی سی نمی آئی

پر آنسو نہیں گرا۔

کیونکہ وہ رونے کے لیے نہیں بنی تھی۔

وہ تو جذب ہونے کے لیے بنی تھی۔

اک دم موبائل کی عدم موجودگی یاد آئی۔

اسے لگا جیسے اس کے پاس نہ ہونا ہی بہتر ہے۔

کیونکہ موبائل صرف آوازیں لاتا ہے…

اور اس کی روح اب صرف خاموشی سننا چاہتی تھی۔

پھر دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔

"آج تو بہت چپ ہو…"

بہن کی آواز آئی۔

وہ کچھ نہیں بولی۔

بہن نے اندر آ کر کہا:

"امی پوچھ رہی تھیں، کھانا کھائے گی یا چھوڑ دیں؟"

اس نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔

"نہیں… بھوک نہیں ہے۔"

لیکن حقیقت یہ تھی…

بھوک تھی۔

پر اس کی نہیں…

اس کے خوابوں کی۔

وہ رات گئے تک بیڈ پر بیٹھی رہی

کبھی اسکرین دیکھتی

کبھی چھت

کبھی اپنے ہاتھ۔

اور پھر اچانک اس نے اپنے ہی دل سے سوال کیا:

"کیا واقعی میں صرف اکیلی ہوں؟

یا پھر…

یہ اکیلا پن بھی ایک دن کسی راستے کا نام بنے گا؟"

کھڑکی کے باہر

ہوا تیز ہو گئی تھی۔

پردہ ہل رہا تھا۔

جیسے کوئی جواب دینے آ رہا ہو۔

لیکن جواب ابھی نہیں آیا تھا…

کیونکہ یہ کہانی

ابھی شروع ہوئی تھی۔

...........

رتیسرے پیریڈ کے ختم ہونے میں ابھی دس منٹ باقی تھے جب دروازہ آہستہ سے کھلا۔

ہر کوئی غیر ارادی طور پر مڑا۔

ٹیچر اندر آئیں، ان کے پیچھے ایک لڑکی کھڑی تھی۔

نہ حد سے زیادہ گھبرائی ہوئی

نہ ضرورت سے زیادہ پُراعتماد۔

درمیانی قد۔

سادہ یونیفارم۔

سفید دوپٹہ جو بار بار ہاتھ سے سنبھل رہا تھا۔

بال سادہ جوڑے میں بندھے ہوئے۔

ٹیچر کی آواز پورے کمرے میں گونجی:

"کلاس، یہ نئی سٹوڈنٹ ہے۔

آج سے یہ تمہارے ساتھ پڑھے گی۔"

کلاس میں سرگوشیوں کی ہلکی سی لہر دوڑ گئی۔

نئی لڑکیوں پر ہمیشہ نظر ڈالی جاتی ہے، تولی جاتی ہیں، پرکھی جاتی ہیں۔

"اپنا نام بتاؤ بیٹا۔"

ٹیچر نے کہا۔

لڑکی نے بمشکل لب ہلائے:

"مِہر…"

اس کی آواز کمزور تھی

لیکن کانوں تک پہنچنے کے لیے کافی۔

ٹیچر نے آخری خالی سیٹ کی طرف اشارہ کیا۔

"وہاں جا کر بیٹھ جاؤ۔"

وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی پچھلی بینچ کی طرف گئی۔

اس کے قدم ہلکے تھے، مگر لڑکھڑائے ہوئے نہیں۔

جیسے وہ پہلے ہی یہ فیصلہ کرچکی ہو کہ: یہ جگہ مستقل نہیں، عارضی ہے۔

اسی لائن میں،

سامنے والی قطار میں

ایک لڑکی بیٹھی تھی…

سر جھکائے،

بال تھوڑے سے بکھرے،

اور کاپی پر بغیر دیکھے لکیر کھینچتی ہوئی۔

وہ تھی… اُفَق۔

نہ اس نے پلٹ کر دیکھا۔

نہ کوئی ردعمل دیا۔

نہ تجسس۔

بس اپنی دنیا میں۔

ساری کلاس مِہر چپ چاپ بیٹھی رہی۔

نہ کسی سے بات۔

نہ کسی سے سوال۔

وہ بار بار

اسی لڑکی کو دیکھتی جو اس سے دو سیٹ آگے بیٹھی تھی۔

جو کسی سے بات نہیں کر رہی تھی۔

جو کسی گروپ کا حصہ نہیں تھی۔

جو وقفے وقفے سے کھڑکی سے باہر دیکھتی

یا پھر بے مقصد نوٹس بناتی۔

مِہر کو نہیں معلوم تھا کہ وہ اسے کیوں دیکھ رہی ہے۔

لیکن ایک بات واضح تھی:

وہ کسی اور جیسی نہیں تھی۔

.........

 ساری لڑکیاں شور مچاتی باہر نکل رہی تھیں۔

کوئی ٹفن لے کر،

کوئی قہقہے لگاتی،

کوئی دوستوں کے کندھوں سے چمٹی ہوئی۔

مِہر وہیں بیٹھی رہی۔

اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا

کہ کس گروپ میں خود کو فٹ کرے۔

وہ اس ماحول میں نئی تھی

اور نیا ہونا بہادری نہیں ہوتا،

اکثر الجھن ہوتا ہے۔

تب اس نے دیکھا…

اُفَق اب بھی اپنی سیٹ پر تھی۔

نہ کوئی دوست۔

نہ کوئی بات کرنے والا۔

نہ کوئی اس کے پاس آنے والا۔

مِہر نے پہلی بار خود کو مجبور نہیں کیا

بلکہ خود کو اجازت دی۔

وہ آہستہ سے اپنی جگہ سے اٹھی

اور دو قدم چل کر اس کی طرف آئی۔

"کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟"

اس کی آواز ہلکی تھی۔

اُفَق نے سر اٹھایا۔

ایک لمحے کو دیکھا۔

خالی نظروں سے۔

غور سے، مگر بغیر دلچسپی کے۔

"جہاں مرضی۔

یہ میری ملکیت نہیں ہے۔"

اس کا لب و لہجہ روایت سے آزاد تھا۔

نہ میٹھا

نہ سخت

بس سیدھا۔

مِہر خاموشی سے بیٹھ گئی۔

کچھ لمحے دونوں خاموش رہیں۔

پھر مِہر بولی:

"میں نئی ہوں یہاں…"

"مجھے اندازہ ہو گیا تھا۔"

اُفَق نے نظریں کاپی سے نہ ہٹائیں۔

"کیسے…؟"

"نئی لڑکیاں ہمیشہ یا تو بہت بولتی ہیں

یا بہت خاموش ہوتی ہیں۔

تم دوسرے نمبر پر ہو۔"

مِہر ہلکا سا مسکرائی،

مگر ڈری ہوئی تھی۔

"اور تم؟"

اُفَق نے سرد نظروں سے دیکھا۔

"میں کسی نمبر میں نہیں آتی۔"

ایک مختصر وقفہ آیا۔

پھر مِہر نے ہمت کی:

"میں دوست بنانا چاہتی ہوں…

لیکن زبردستی نہیں۔

صرف آہستہ آہستہ۔"

اُفَق نے قلم رکھ دیا۔

"مجھے دوست بنانے کا شوق نہیں۔

مجھے بھیڑ پسند نہیں۔"

"میں بھی بھیڑ نہیں ہوں…"

مِہر نے سنجیدگی سے کہا

"بس اکیلی ہوں۔"

اُفَق نے ایک لمحے کو اس کا چہرہ دیکھا۔

اس بار زیادہ گہرائی سے۔

"اکیلا ہونا طاقت ہے،

اگر اسے سہنا آ جائے۔"

گھنٹی بجی۔

ساری لڑکیاں دوبارہ کلاس میں آ گئیں۔

مِہر اپنی سیٹ پر واپس چلی گئی۔

وہ ناکام تھی۔

اسے معلوم تھا۔

لیکن اندر کہیں…

وہ ہاری نہیں تھی۔

اس نے پہلی دفعہ کسی کو زبردستی نہیں پکڑا تھا۔

صرف موجود رہی تھی۔

اور اُفَق؟

وہ دوبارہ اپنی دنیا میں چلی گئی تھی…

مگر اس دفعہ

اس کی کاپی کے کنارے والی لائن

باقی دنوں سے زیادہ سیدھی نہیں تھی۔

........

شام کی ہوا آج کچھ زیادہ ہی خاموش تھی۔

جیسے محلے نے سانس روک رکھی ہو۔

گلی کے نکڑ پر پیپل کے درخت کی شاخیں ہل ہل کر سرگوشیاں کر رہی تھیں، اور سورج رفتہ رفتہ دیواروں کے پیچھے دفن ہو رہا تھا۔

اسی وقت ایک سیاہ رنگ کی رکشہ آہستہ سے رکا۔

دروازہ کھلا۔

سب سے پہلے ایک سفید سا بیگ باہر رکھا گیا۔

پھر وہ اتری…

ہلکے گلابی دوپٹے میں لپٹی،

گھبرائی ہوئی،

آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہوئے۔

مہر۔

اس کی آنکھوں میں ایک مستقل سی جھجک بسی ہوئی تھی۔

نہ چہرے پر غرور، نہ انداز میں اونچائی۔

بس سادگی… اور ڈر۔

یہاں آنا اس کی اپنی مرضی نہیں تھی۔

حالات اسے یہاں لے آئے تھے۔

اس نے گردن گھما کر دیکھا…

یہ محلہ، یہ گلیاں، یہ اجنبی دیواریں…

سب کچھ اس کے لیے نیا تھا۔

گھر کا دروازہ کھلا۔

خالہ نے بس سر کو ہلکا سا ہلایا۔

"کمرہ اوپر ہے۔"

کوئی گلے لگانا نہیں۔

کوئی خوشی نہیں۔

کوئی اپنائیت نہیں۔

وہ خاموشی سے سیڑھیاں چڑھ گئی۔

کمرے میں داخل ہوئی تو خالی پن نے اس کا استقبال کیا۔

ایک بستر، ایک کھڑکی، ایک الماری…

بس۔

وہ بیگ رکھ کر بستر پر بیٹھ گئی۔

دل میں عجیب سا خلا تھا۔

کچھ کمی…

کچھ ٹوٹا ہوا…

وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس آئی۔

باہر گلی نظر آ رہی تھی۔

اور تب…

اس کی نظر اُس پر پڑی۔

---

سامنے والے پرانے سے گھر کی چھت پر

ایک لڑکی فرش پر بیٹھی تھی۔

ہاتھوں میں کوئی موبائل نہیں

کوئی فون نہیں

بلکہ…

ایک لیپ ٹاپ۔

لڑکی کی ٹانگیں آدھی مڑی ہوئی تھیں،

بال ہلکے سے بکھرے تھے،

اور لباس میں لاپرواہی واضح تھی۔

جیسے اسے کسی کی موجودگی سے فرق نہ پڑتا ہو۔

یہ تھی… اُفق۔

وہ کبھی اسکرین کی طرف جھکتی،

کبھی پیچھے کو ہو کر چھت پر لیٹ جاتی،

پھر اچانک جیسے کسی بات پر غصہ آتا

تو لیپ ٹاپ بند کر کے سائیڈ پر پھینک دیتی۔

اور اگلے ہی لمحے…

خود ہی ہنس دیتی۔

ہلکی سی، بے ساختہ، خود سے۔

جیسے وہ دنیا سے نہیں…

خود سے باتیں کرتی ہو۔

وہ اکیلی تھی۔

اور شاید اسی میں خوش۔

اچانک وہ اٹھتے ہوئے ٹھوکر کھا گئی۔

بالکل ایک بچی کی طرح۔

لیپ ٹاپ زمین پر گرا۔

وہ غصے سے اسے گھورنے لگی۔

"اوہ کمبخت…"

وہ بڑبڑائی۔

پھر خود ہی ہنس دی۔

"تو بھی میری طرح بدتمیز ہے۔"

مہر یہ منظر خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔

اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔

وہ پہلی بار کسی کو دیکھ رہی تھی

جو اکیلی ہو کر بھی بوجھل نہیں لگتی تھی۔

اور یہی وہ لمحہ تھا…

جب پہلی بار

اُفق کا تصور

مہر کے دل میں اترا۔

نام وہ نہیں جانتی تھی۔

لیکن چہرہ…

وہ محفوظ ہو چکا تھا۔

---

اگلے دن…

صبح کی ہلکی روشنی کے ساتھ

مہر پانی لینے نیچے آئی۔

صحن میں خالہ کی آوازیں تھیں،

برتنوں کی کھنک تھی،

اور چھت پر…

پھر وہی لڑکی۔

اُفق۔

وہ اب چھت کی دیوار سے ٹیک لگائے

لیپ ٹاپ گود میں رکھے

کچھ ٹائپ کر رہی تھی۔

اور بار بار رک کر

بالوں کو ادھر سے ادھر کر رہی تھی۔

بےچینی سے۔

جیسے اس کا دماغ بھی اُس کے ہاتھوں کے ساتھ چل رہا ہو۔

مہر کی ہمت جمع ہوئی۔

وہ سیڑھیاں چڑھی۔

دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

چھت پر پہنچی تو ہوا کا ایک جھونکا آیا۔

اُفق نے سر نہیں اٹھایا۔

بس بولی:

"اگر پانی لینے آئی ہو تو نیچے ٹوٹیاں ہیں، یہاں نہیں۔"

مہر رک گئی۔

پھر آہستہ سے بولی:

"میں… میں نئی آئی ہوں یہاں۔"

چند لمحوں کی خاموشی۔

پھر اُفق نے سر اٹھایا۔

نظریں سیدھی۔

صاف۔

گہری۔

لیکن بالکل جذبات سے خالی۔

"تو؟"

ایک لفظ۔

بس ایک۔

مہر نے ہاتھوں کو آپس میں جوڑا۔

"مجھے لگا… شاید یہاں کسی سے بات ہو جائے…"

اُفق نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔

"یہ چھت ہے، تھراپی سینٹر نہیں۔"

اور دوبارہ لیپ ٹاپ کی اسکرین میں جھک گئی۔

مہر کا دل ڈوبا۔

لیکن وہ گئی نہیں۔

وہ وہیں کھڑی رہی۔

جیسے چلی گئی تو خود کو ہرا دے گی۔

"مجھے دوست پسند ہیں…"

اس نے ہمت کر کے کہا۔

اُفق نے انگلیاں رکیں۔

پھر آہستہ سے کہا:

"مجھے نہیں۔"

اور لیپ ٹاپ بند کر کے ایک طرف رکھ دیا۔

آنکھوں میں وہی ٹھنڈک۔

"اکیلے رہنا ایک نعمت ہے۔

لوگ شور ہوتے ہیں۔

اور مجھے شور سے الرجی ہے۔"

---

مہر خاموش ہو گئی۔

لیکن اس کی آنکھوں میں ضد تھی۔

ایک نرم ضد۔

وہ جان چکی تھی…

یہ لڑکی اندر سے اکیلی ہے۔

اور وہ…

اس اکیلے پن کو توڑنا چاہتی ہے۔

اس نے ایک نظر اسکو دیکھا اور دیوار سے ہٹ کے واپس نیچے اتر گئی

........

رات کافی پھیل چکی تھی۔

محلے کے زیادہ تر گھروں میں روشنی مدھم ہو چکی تھی۔

کچھ کھڑکیوں سے پیلی روشنی چھن کر باہر آ رہی تھی

جیسے تھکے ہوئے خواب۔

اُفق حسبِ معمول چھت پر تھی۔

سامنے لیپ ٹاپ کھلا،

اسکرین پر الفاظ تھے…

بہت سے الفاظ…

وہ کچھ لکھ رہی تھی۔

بار بار لکھتی۔

پھر مٹاتی۔

جیسے اس کا دماغ خود سے لڑ رہا ہو۔

ہوا آہستہ آہستہ اس کے بالوں کو بکھیر رہی تھی۔

وہ بال بار بار آنکھوں میں آ جاتے

اور وہ غصے سے انہیں پیچھے جھٹک دیتی۔

"یار سیدھے تو رہا کرو…"

وہ بڑبڑائی۔

لیکن اچانک…

اس کا ہاتھ لیپ ٹاپ کے پاور بٹن سے ٹکرا گیا۔

اور اسکرین بند۔

ایک لمحے کو اس نے خاموشی سے دیکھا۔

پھر گہرا سانس لیا۔

پھر ایک زوردار غصے بھرا سانس۔

"واہ اُفق!

واہ!

تجھے تو پلیٹ بھی نہ پکڑنے دینی چاہیے!"

وہ خود پر چلائی۔

پھر چھت کے فرش پر پاؤں مارا۔

اور اگلے ہی لمحے

خود ہی ہلکی سی ہنسی ہنس دی۔

یہی تھی وہ۔

غصے میں بھی خود کو نہیں چھوڑتی تھی۔

ٹوٹنے سے بھی انکار۔

نیچے گھر سے آواز آئی۔

"اُفق!!!"

اس کی ماں کی آواز۔

سخت۔

جلتی ہوئی۔

اُفق نے آنکھیں بند کیں۔

چند لمحے خاموش رہی۔

پھر آہستہ آہستہ سیڑھیاں اتری۔

نیچے صحن میں اس کی ماں کھڑی تھی۔

اور سامنے اس کی بہن۔

بالکل اس جیسی، مگر اس سے زیادہ کڑوی۔

"کتنی بار کہا ہے تجھے؟

یہ چھت پر اکیلے مرنے مت جایا کر!"

ماں کی آواز میں غصہ بھی تھا اور تھکن بھی۔

اُفق نے لاپروائی سے کندھے اچکائے۔

"مرنے کا دل ہوگا تو کمرے میں بھی مر جاؤں گی۔

چھت کی کیا شرط ہے؟"

ماں نے آنکھیں تنگ کیں۔

"بدتمیز مت بن!"

تب بہن بول اٹھی۔

"یہ بس دکھاوا کرتی ہے امی، خود کو بہت سٹرانگ ثابت کرنے کا!"

اس کے لہجے میں زہر تھا۔

خاص طور پر اُفق کے لیے۔

اُفق نے آہستہ سے اس کی طرف دیکھا۔

ہونٹوں پر ہلکی سی ٹیڑھی مسکراہٹ آئی۔

"اور تم بس دکھاوا کرتی ہو خود کو نارمل ثابت کرنے کا۔

فرق صرف اتنا ہے کہ تمہیں لوگ مان بھی لیتے ہیں۔"

بہن کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

"چپ کر جا!

ہر بات میں زہر گھولنا ضروری ہے؟"

اُفق نے آگے بڑھ کر میز پر رکھا گلاس اٹھایا۔

پانی پیا۔

اور دھیرے سے بولی:

"زہر گھولنا نہیں۔

بس حقیقت تھوکتی ہوں۔"

فضا میں جیسے تناؤ جم گیا۔

ماں نے میز پر ہاتھ مارا۔

"بس کرو تم دونوں!

اُفق! تمہیں کسی سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے؟

کوئی دوست کیوں نہیں تمہارا؟"

اُفق مسکرائی۔

کافی دیر بعد مسکرائی تھی۔

لیکن وہ مسکراہٹ تھکی ہوئی تھی۔

"دوست…؟

میرے پاس پہلے ہی بہت شور ہے امی،

خاموشی کے لیے جنگ لڑتی ہوں۔

اور آپ مجھے محفل میں دھکیلنا چاہتی ہیں؟"

ماں خاموش ہو گئی۔

شاید اسے جوابه نہ ملا۔

یا وہ سمجھ ہی نہ پائی۔

اسی رات…

اُفق اپنے کمرے میں آ کر بستر پر گر گئی۔

لیپ ٹاپ دوبارہ آن کیا۔

اسکرین پر پھر وہی خالی ڈاکیومنٹ۔

سفید صفحہ۔

وہ دیر تک اسے دیکھتی رہی۔

پھر دھیرے سے لکھا:

"اکیلے رہنا جرم نہیں ہوتا۔

جرم یہ ہے کہ لوگ تمہیں زبردستی بھیڑ میں گھسیٹتے ہیں۔"

وہ رک گئی۔

تبھی کمرے کی کھڑکی سے ہلکی سی کھنک آئی۔

وہ چونکی۔

کھڑکی کی طرف دیکھا۔

ادھر والی چھت سے کوئی ہلکی سی آواز تھی۔

اور وہاں…

وہی چہرہ۔

مہر۔

وہ دوسری چھت پر آہستہ آہستہ کھڑی تھی۔

پردے کے پیچھے سے نہیں۔

سامنے۔

کھلے آسمان کے نیچے۔

ہلکی سی ہوا میں دوپٹہ اُڑ رہا تھا۔

وہ کچھ کہے بغیر

بس اُفق کو دیکھ رہی تھی۔

خاموشی سے۔

ڈرتی ہوئی۔

لیکن پھر بھی وہاں۔

اُفق نے آنکھیں تنگ کیں۔

"سو جاتی ہو یا بس دیکھنے کا مشغلہ ہے؟"

مہر گھبرا گئی۔

مگر بھاگی نہیں۔

آہستہ سے بولی:

"میں صرف یہ دیکھ رہی تھی کہ

آپ واقعی اکیلی ہیں…

یا صرف دکھاتی ہیں۔"

ایک لمحے کی خاموشی۔

اُفق نے چونک کر اسے دیکھا۔

پھر ہلکا سا قہقہہ لگا۔

"اور؟ فیصلہ ہو گیا؟"

مہر نے نظریں جھکا لیں۔

"آپ واقعی اکیلی ہیں…

لیکن اکیلی ہو کر بھی مضبوط ہیں۔"

یہ بات اُفق کو کسی چاکو کی طرح چبھ گئی۔

وہ خاموش ہو گئی۔

اس نے کچھ جواب نہیں دیا۔

صرف آہستہ سے لیپ ٹاپ بند کیا۔

اور نظریں آسمان کی طرف اٹھا دیں 

(تم لوگ کیا سوچتے ہو افق مہر کو دوست بنائے گی)