Ficool

Chapter 1 - بروٹ

 بروٹ 

باب اوّل: نوکری کا خوفناک دروازہ 

عریشہ شاہ:

اکیس سالہ عریشہ، جس کا نام عربی میں 'جنت کی سیڑھی' کا مفہوم رکھتا تھا، سردیوں کی دھوپ میں کسی نازک تتلی کی طرح لرز رہی تھی۔ اس کا نازک وجود، پھیکا پڑا ہوا سوتی دوپٹہ, گھٹنوں تک آتی فراک اورساتھ نیلے رنگ کی ٹراؤ زر اور ہاتھوں میں تھامی فائل... سب کچھ گواہی دے رہا تھا کہ وہ کس غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ 'کاشان احمد کارپوریشن' کی وسیع و عریض، سنگ مرمر سے بنی لابی میں کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ہزاروں سپنے پل رہے تھے، اور ہر سپنا اس کے والدین کی بڑھتی ہوئی عمر، اور باپ کے کمزور ہوتے کندھوں کا قرض تھا۔

عریشہ کے لیے، یہ محض ایک نوکری کا انٹرویو نہیں تھا؛ یہ اپنے والدین کے لیے ایک محفوظ مستقبل کا پہلا قدم تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی معصومیت اور کمائی کی خواہش کو زمانے کی سختیاں آسانی سے کچل سکتی ہیں، مگر اس نے اپنے اندر ایک آہنی ارادہ بسا رکھا تھا۔ اس کے دوست اسے پیار سے "پری" کہا کرتے تھے، کیوں کہ وہ دکھتی ہی ایسی تھی— بڑی، سیاہ اور خواب آلود آنکھیں، اور ہنستے ہوئے گالوں پر پڑنے والے گہرے ڈمپل کمرپرگرتےگہرےسیاہ رنگ کےبال جواسکی خوبصورتی میں مزیداضافہ کرتے۔ لیکن وہ اس وقت دنیا کے سب سے طاقتور اور بدنام زمانہ کاروباری خاندان کے دفتر میں تھی۔

کاشان احمد (عرف بروٹ) کا دفتر:

تیسویں منزل پر واقع، کاشان احمد کا دفتر صرف ایک دفتر نہیں تھا، بلکہ ایک گہری، خوفناک خاموشی کا قید خانہ تھا۔ لکڑی کی تاریک دیواریں اور فرنیچر، ہر چیز پر محیط پرانی قالین کی خوشبو، اور وہ یخ بستہ اے سی کی ہوا جو جسم میں سردی کی بجائے خوف بھرتی تھی۔ کاشان کا ذاتی سیکرٹری، ایک بے جان روبوٹ کی طرح، عریشہ کو اس دروازے تک لے آیا جس پر سنہرے حروف میں صرف 'K.A' لکھا ہوا تھا۔

"اندر جائیے، مس عریشہ۔ اور ہوشیار رہیے گا۔" سیکرٹری نے اس قدر بے تاثر آواز میں کہا جیسے وہ کسی پھانسی کے تختے کی طرف اشارہ کر رہا ہو۔

عریشہ نے ایک لمبی سانس لی اور دروازے پر دستک دی۔

بروٹ کا ظہور:

اندر سے ایک گرج دار اور پتھریلی آواز آئی: "آ جاؤ!"

جیسے ہی عریشہ اندر داخل ہوئی، اس نے محسوس کیا کہ جیسے اس کی معصومیت کا پردہ چاک ہو رہا ہو۔ کمرہ بہت بڑا تھا اور اس کی ایک پوری دیوار شیشے کی تھی، جس سے پورا شہر نیچے ایک کھیل کے میدان کی طرح نظر آ رہا تھا۔ لیکن عریشہ کی نگاہیں صرف ایک شخص پر جم گئیں۔

کاشان احمد ایک سیاہ چمڑے کی کرسی پر بیٹھا تھا، جس کا قد کرسی پر بیٹھے ہوئے بھی کمرے میں موجود ہر چیز سے بڑا لگ رہا تھا۔ اس کی عمر تیس کے آس پاس تھی، لیکن اس کے چہرے پر ایک ایسی سفاکی اور بے حسی چھائی ہوئی تھی جو کسی بوڑھے قاتل کے چہرے پر بھی مشکل سے ملتی ہو۔ لوگ اسے بروٹ (Brute) کہتے تھے—ایک انسان کے روپ میں شیطان۔ اس کے لباس میں ہزاروں روپے کی کریز پڑی تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک ایسی وحشت تھی جو کسی لباس سے چھپائی نہیں جا سکتی تھی۔ اس کی تیکھی آنکھیں اسے مزید خطرناک بنا رہی تھی۔

کاشان نے اسے سر سے پاؤں تک ایک غلیظ نظر سے دیکھا۔ عریشہ نے محسوس کیا جیسے اس کی روح تک کو اس نے ننگا کر دیا ہو۔

"تو تم ہو عریشہ۔ مس پری؟" کاشان نے انتہائی حقارت آمیز لہجے میں کہا، جیسے وہ اس کا نام نہیں بلکہ ایک گالی دے رہا ہو۔ اس کی آواز میں ایک گہرائی اور بے رحمی تھی۔

عریشہ کے گلے میں الفاظ اٹک گئے۔ اس نے ہمت جمع کی اور دھیمی آواز میں کہا، "جی سر۔ میں... ایم بی اے کر رہی ہوں اور میرے مارکس..."

کاشان نے بے صبری سے اپنا ہاتھ لہرایا، "مارکس۔ مارکس تو کاغذ کا ٹکڑا ہیں۔ میں یہاں دماغ نہیں، اطاعت خریدتا ہوں۔" وہ اپنی کرسی سے اٹھا اور آہستہ آہستہ عریشہ کی طرف بڑھا۔ اس کے قدموں کی آواز بھی اس تاریک کمرے میں دھمک کی طرح گونج رہی تھی۔

عریشہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، جیسے ابھی پسلیوں کا پنجرہ توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ کاشان اس کے بالکل سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ عریشہ کو سر اٹھانے کے لیے بہت اونچا دیکھنا پڑا۔

"بتاؤ عریشہ، تم مجھ سے ڈر رہی ہو؟" اس نے سرد لہجے میں پوچھا۔

عریشہ نے اپنی نچلی ہونٹ کو دانتوں تلے دبا لیا، لیکن اس نے بھاگنے کی بجائے کاشان کی آنکھوں میں دیکھا۔ "سر، مجھے ڈر نہیں... احترام ہے۔ مجھے یہ نوکری چاہیے کیونکہ میں اپنے والدین کا بوجھ بانٹنا چاہتی ہوں۔"

بروٹ کے ہونٹوں پر ایک غیر انسانی، مکار مسکراہٹ ابھری۔ "بوجھ؟ تو تم ایک وفادار بیٹی ہو؟ وفاداری اچھی صفت ہے، عریشہ۔" وہ اپنے ہاتھ عریشہ کے کندھے پر رکھنے ہی والا تھا کہ دروازہ ہلکا سا کھٹکھٹایا گیا۔

شایان احمد کا سائے:

کاشان کا چہرہ غصے سے مزید سرخ ہو گیا۔ "کیا ہے؟ میں نے کہا تھا کوئی ڈسٹرب نہیں کرے گا!"

دروازے کے باہر سے ایک نسوانی آواز آئی، نرم مگر باوقار: "کاشان! تمہاری ماں لندن سے ابھی پہنچی ہیں، اور وہ تمہیں فوراً دیکھنا چاہتی ہیں۔ اب وقت ضائع مت کرو۔"

یہ آواز اس کے بھائی، شایان احمد کی ماں کی تھی — وہی عورت جو شایان کی سب سے بڑی کمزوری اور طاقت تھی۔

کاشان کا غصہ اچانک کافور ہو گیا۔ اس کے چہرے پر غصے کی جگہ، ایک خفیف سی پریشانی نے لے لی۔ اس نے عریشہ کو ایک آخری، گھناؤنی نظر ڈالی اور سرد لہجے میں کہا، "جاؤ۔ اپنی فائل یہاں چھوڑ جاؤ۔ تمہیں کل پتہ چلے گا کہ تمہیں نوکری ملی یا نہیں، اور تمہیں میرا وفادار بننا پڑے گا، پری۔

اس بات سے بے خبر کے آگے کیا ہونےوالا ہے اُس کے ساتھ"

عریشہ تیز قدموں سے کمرے سے باہر نکل آئی۔ اس کی کمرے سے باہر آنے کی رفتار معمول سے بہت تیز تھی۔ باہر نکل کر اس نے چین کی سانس لی، لیکن اس کے دماغ میں کاشان کا خوفناک چہرہ نقش ہو چکا تھا۔ وہ سیڑھیاں اتر کر لابی کی طرف بڑھ رہی تھی کہ عین اسی وقت ایک طرف سے ایک اور شخص تیزی سے لفٹ سے نکل کر گارڈز کو ہدایت دے رہا تھا۔

یہ شایان احمد تھا— جس کا ذکر ابھی کاشان کی والدہ نے کیا تھا۔ وہ کاشان سے بالکل مختلف تھا۔ شایان ایک دم سیدھا، نیلے سوٹ میں ملبوس، اس کی آنکھیں بلی کی طرح روشن اور پُرکشش، اور اس کے چہرے پر ایک ایسی دلکشی تھی جو کسی بھی محفل کو اپنی طرف موڑ لیتی تھی۔ وہ بات کرنے میں ایسا ماہر تھا کہ لفظوں سے جادو کرتا تھا۔ وہ دراصل کاشان کے سوتیلے بھائی تھے اور ایک دوسرے سے بلکل الگ۔

عریشہ اس کے قریب سے گزری۔ شایان کی توجہ گارڈز پر تھی، لیکن جیسے ہی عریشہ اس کے پاس سے گزری، شایان نے ایک لمحے کے لیے پلٹ کر عریشہ کو دیکھا۔ ایک نازک، خوفزدہ چہرہ جو کسی بھیڑ میں گم ہو رہا تھا۔ شایان کے دل میں ایک لمحے کا سوال پیدا ہوا: "یہ لڑکی کون ہے؟ اور اس کی آنکھوں میں یہ خوف کیوں ہے؟"

عریشہ لفٹ میں داخل ہو کر نیچے کا بٹن دبایا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس خطرناک کھیل کا حصہ بننے جا رہی ہے، جہاں ایک طرف شیطان ہے اور دوسری طرف ایک روشن آنکھوں والا بزنس مین۔

باب اوّل کا اختتام

—------------------------------------------------ 

پری اور شیطان کی کہانی

باب دوم: امیدوں کا شہر اور خوف کا سایہ

اسلام آباد: ایک ٹھہرا ہوا منظر

عریشہ کا گھر اسلام آباد کے سیکٹر آئی-ایٹ (I-8) ایک پرانے حصے میں تھا۔ ایک چھوٹا، دھیما روشنی والا مکان جہاں سکون تو تھا مگر ضروریات کی کمی ہمیشہ دیواروں پر سائے ڈالے رہتی تھی۔ جب عریشہ اس ڈراؤنے انٹرویو کے بعد شام کو واپس پہنچی، تو مغرب کی نرم دھوپ ان کے صحن میں بچھے دری پر پڑ رہی تھی، جہاں اس کے والدین پریشان بیٹھے تھے۔

والدین کا تعارف:

ارسم، عریشہ کے والد، جو ایک زمانے میں ایک سرکاری محکمے میں کلرک تھے، اب اپنی ریٹائرمنٹ کی کم پینشن پر زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی صحت بھی جواب دے چکی تھی اور ان کے کندھے جھک گئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں بیٹی کے لیے محبت تھی اور مستقبل کی فکر۔

شائستہ بیگم، عریشہ کی والدہ، مضبوط ارادے کی مالک تھیں مگر اپنی بیٹی کی معصومیت اور باہر کی دنیا کے خطرات سے واقف تھیں۔ انہوں نے فوراً عریشہ کے چہرے پر پڑی سفیدی نوٹ کی۔

"کیا ہوا میرے بچے؟" شائستہ بیگم نے نرمی سے پوچھا۔ "انٹرویو کیسا رہا؟ تم اتنی سہمی ہوئی کیوں لگ رہی ہو؟"

عریشہ نے اپنی ماں کے گلے لگ کر وہ سارا بوجھ اتار دیا جو اس نے کاشان احمد کے دفتر میں محسوس کیا تھا۔ "سب ٹھیک ہے، امی۔ بس... آفس بہت بڑا تھا، اوربوس..." اس نے کاشان کا نام لینا مناسب نہ سمجھا، "بوس ذرا سخت مزاج ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ کل بتائیں گے۔"

ارسم صاحب نے تسلی دی، "اللہ مالک ہے۔ بس تم نے سچ بول دیا، اور یہی بڑی بات ہے۔ اگر ارادہ نیک ہو تو اللہ آسانیاں پیدا کرتا ہے۔"

خوشخبری اور ایک نیا بوجھ:

اگلے دن، جب عریشہ فجر کی نماز کے بعد فیصل مسجد کے سفید گنبدوں کی طرف دیکھ کر دعا کر رہی تھی، تو اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس کی فائل پر چھوڑے گئے فون نمبر پر ایک بے تاثر آواز نے اطلاع دی: "مس عریشہ۔ آپ کو کاشان احمد کارپوریشن میں 'ایگزیکٹو اسسٹنٹ' کے طور پر منتخب کر لیا گیا ہے۔ آپ کی تنخواہ.80,000.. اور آپ کل صبح نو بجے رپورٹ کریں گی۔"

عریشہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ اس نے فوراً شائستہ بیگم اور ارسم صاحب کو خبر سنائی۔ گھر میں ایک دم عید کا سا سماں ہو گیا۔ ارسم صاحب کی آنکھوں میں پہلی بار سکون کی چمک نظر آئی۔

"میری پری اب اپنے باپ کا بوجھ نہیں، سہارا بنے گی،" ارسم صاحب نے فخر سے کہا۔

لیکن شائستہ بیگم کے دل میں ایک نرم کانٹا چبھ رہا تھا۔ "بس بیٹا! باہر کی دنیا میں اپنے ہوش سنبھال کر رکھنا۔ خاص طور پر ایسے امیر اور بڑے لوگوں کے آفس میں۔ مجھے وہ خوف یاد ہے جو تمہاری آنکھوں میں کل تھا۔"

عریشہ نے مسکرا کر اپنی ماں کو یقین دلایا، "امی، میں ان سب کو برداشت کر لوں گی، بس آپ دونوں کی حفاظت ہو جائے۔" اس نے جان لیا تھا کہ یہ نوکری محض کاغذات کی نہیں، بلکہ اس کی روح کی قیمت پر ملی ہے۔کبھی کبھی کچھ مجبوریاں ہماری روح کا سودا کرنے کا سبب بن جاتی ہیں

اسلام آباد کی خوبصورتی اور خوف کا رخ:

اگلے دن، عریشہ اپنے پہلے دن کے لیے تیار ہوئی۔ وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنے دفتر کی طرف روانہ ہوئی۔ اسلام آباد کا صبح کا منظر انتہائی خوبصورت تھا۔ بلندی پر واقع دفتر کی طرف جاتے ہوئے، اس کی ٹیکسی مارگلہ کی پہاڑیوں کے قریب سے گزری۔ اوپر دامنِ کوہ پر پڑے بادلوں کا سایہ شہر پر پڑ رہا تھا۔ شہر کی سڑکیں صاف، کشادہ اور نظم و ضبط کی نشاندہی کر رہی تھیں، جہاں ہر طرف سرسبز درختوں کی قطاریں تھیں۔

"کتنا پرسکون شہر ہے یہ،" عریشہ نے سوچا۔ "اور میرا دفتر... وہ کتنا تاریک ہے۔"

کاشان احمد کارپوریشن کا ہیڈ کوارٹر بلیو ایریا کی بلند ترین عمارتوں میں سے ایک میں تھا۔ یہ عمارت شہر کے مرکزی کاروباری علاقے میں تھی اور دور سے ہی دولت اور طاقت کا غرور جھلکاتی تھی۔ جب عریشہ کی ٹیکسی اس عمارت کے بیسمنٹ میں داخل ہوئی، تو اسے لگا جیسے وہ اسلام آباد کے حسین مناظر سے کٹ کر کسی زیرِ زمین بھول بھلیّاں میں آ گئی ہے۔

دوبارہ خوفناک دروازے پر:

لفٹ میں تیسویں منزل کا سفر پھر سے اس کے دل کی دھڑکنیں تیز کر گیا۔ اس بار اسے براہ راست کاشان احمد کے نجی سیکرٹریٹ میں پہنچا دیا گیا، جہاں کاشان کا ذاتی سیکرٹری، مسٹر جمشید، بے چینی سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔

"مس عریشہ، مبارک ہو،" جمشید نے اسی بے تاثر انداز میں کہا۔ "آپ کو صرف ایک کام کرنا ہے۔ کاشان صاحب کے نجی شیڈول، ملاقاتوں اور فائلوں کی دیکھ بھال۔ ان کا موڈ ہر لمحہ بدلتا ہے۔ کوئی سوال نہیں، کوئی تاخیر نہیں۔ اور کبھی بھی ان کی مرضی کے خلاف کچھ نہ کیجیے گا۔"

جمشید نے عریشہ کو اس کی چھوٹی سی میز دکھائی، جو کاشان احمد کے دفتر کے باہر ایک چھوٹے، تاریک گوشے میں تھی۔ میز پر کام کا ایک پہاڑ پڑا تھا۔

"اور... کاشان صاحب کہاں ہیں؟" عریشہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

"وہ آج صبح میٹنگ کے لیے لاہور گئے ہیں۔ وہ دو دن بعد واپس آئیں گے۔" جمشید نے جواب دیا۔ "آپ کے پاس دو دن ہیں۔ سب کچھ جان لیں، سیکھ لیں۔ کیونکہ ان کی واپسی کے بعد... آپ کے پاس سیکھنے کا وقت نہیں ہوگا۔"

عریشہ نے کام کا پہاڑ دیکھا اور پھر اس بند دروازے کی طرف دیکھا جس پر سنہرے حروف میں 'K.A' لکھا تھا۔ وہ جان گئی تھی کہ یہ دو دن اسے ملنے والی واحد مہلت ہے۔ لیکن ان دو دنوں میں کیا ہونے والا تھا، اس سے وہ ناواقف تھی۔

باب دوم کا اختتام

—------------------------------------------------

پری اور شیطان کی کہانی

باب سوم: بلی آنکھوں کا پہلا دیدار

F-9 پارک: مہلت کا دن

کاشان احمد کے دفتر سے ملی دو دن کی مہلت عریشہ کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ پہلے دن اس نے فائلیں سمجھنے میں گزارا، اور دوسرے دن کا آغاز اس نے اپنی بہترین دوست ارہامہ کے ساتھ فاطمہ جناح پارک (F-9) میں کیا۔

ارہامہ، عریشہ کی طرح معصوم تو نہیں تھی، لیکن زندگی کے ہر معاملے میں اس کی سب سے بڑی حمایتی تھی۔ وہ ایک ہنس مُکھ لڑکی تھی جو عریشہ کو اس کی پریشانیوں سے نکالنا جانتی تھی۔ دونوں پارک کے گھنے سبزے کے درمیان ایک بینچ پر بیٹھی تھیں، جہاں اردگرد ہرے بھرے درختوں سے چھن کر آتی دھوپ اور اسلام آباد کی صاف ہوا انہیں سکون دے رہی تھی۔

"عریشہ، مجھے تمہاری تنخواہ سے کوئی دلچسپی نہیں،" ارہامہ نے ایک چپس کا پیکٹ کھولتے ہوئے کہا۔ "مجھے اس مالک سے ڈر لگ رہا ہے جس کے بارے میں تم نے کل بتایا تھا۔ تم اایک معصوم پری ہو، اور وہ انسان کے روپ میں شیطان لگتا ہے۔"

عریشہ نے ایک گہری سانس لی۔ "ہاں، ارہامہ۔ اس کی آنکھوں میں ایک ویرانی اور غرور ہے جو خوفناک ہے۔ لیکن... مجھے یہ نوکری ہر حال میں کرنی ہے۔ ابا اور امی کو سکون چاہیے، اور یہ نوکری ان کے سارے قرض اتار سکتی ہے۔"

"تم بہت بڑی قربانی دے رہی ہو، پری،" ارہامہ نے عریشہ کا ہاتھ تھاما۔

شایان اور ان کی ماں:

اسی وقت، پارک کے مرکزی راستے سے ایک نہایت نفیس جوڑا گزر رہا تھا۔ یہ تھے شایان احمد اور ان کی والدہ، زینب بیگم۔ زینب بیگم ایک باوقار خاتون تھیں، جو لندن میں وقت گزارنے کے بعد اپنے بیٹے سے ملنے آئی تھیں۔ وہ آہستہ روی سے چل رہی تھیں اور شایان، اپنی ماں کے اردگرد ایک حفاظتی حصار بنائے، نہایت احتیاط سے ان کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔

شایان کا سوٹ بے شک کاشان جتنا قیمتی تھا، لیکن اس کی شخصیت میں ایک نرمی تھی جو اس کی خوبصورت بلی آنکھوں سے جھلکتی تھی۔ وہ بلی آنکھوں والا ڈیشنگ بزنس مین، جسے اسلام آباد کی کاروباری دنیا میں صرف اس کی کامیابیوں سے نہیں، بلکہ اس کی سحر انگیز گفتگو اور دھیمے لہجے سے پہچانا جاتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری اور طاقت اس کی ماں تھی۔

"شایان، تم نے یہ پارک بہت بدل دیا ہے،" زینب بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "اب یہ بالکل ویسا ہی پرسکون ہے جیسے تمہیں پسند ہے۔ لیکن کاشان کے معاملات... کیا تم اس کا خیال رکھ رہے ہو؟"

شایان کے چہرے پر ایک تلخ تاثر ابھرا۔ "امی، میں اپنا کام کر رہا ہوں۔ اور کاشان... وہ بھی ایک بالغ انسان ہے۔ لیکن مجھے آپ کی فکر ہے۔ کیا آپ کو زیادہ چلنے سے تھکاوٹ تو نہیں ہو رہی؟اس نے بات بدل دی"

ٹکراؤ کا لمحہ:

زینب بیگم نے مسکرا کر کہا، "میں ٹھیک ہوں، میرے بچے... بس تھوڑی دیر بیٹھنا چاہتی ہوں۔"

شایان کی نظریں قریب ہی خالی بینچ کی تلاش میں تھیں، اور اسی لمحے ارہامہ نے عریشہ کو کچھ دکھانے کے لیے جلدی میں اپنا ہاتھ ہوا میں اٹھایا، جس سے اس کے ہاتھ میں پکڑا پانی کا گلاس چھلک گیا اور اس کے چند قطرے شایان کے نیلے سوٹ پر جا پڑے۔

"اوہ خدایا! مجھے معاف کیجیے!" ارہامہ فوراً کھڑی ہو گئی۔

شایان نے ٹھہر کر دیکھا۔ وہ ہلکا سا بھی ناراض نہیں ہوا۔ جب اس نے اپنی نظریں اٹھائیں تو اس کی بلی آنکھوں نے فوراً اس نازک چہرے کو پہچان لیا جسے اس نے کاشان احمد کارپوریشن کی لابی میں دیکھا تھا۔ عریشہ۔

"کوئی بات نہیں،" شایان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز میں وہ گہری کشش تھی جو لمحوں میں سننے والے کو اپنا اسیر بنا لیتی تھی۔ "یہ صرف پانی ہے۔"

عریشہ بھی شرمندگی سے کھڑی ہو گئی اور تیزی سے اپنے دوپٹے کے کونے سے سوٹ پر لگے قطروں کو صاف کرنے لگی۔ اس لمحے، شایان نے محسوس کیا کہ اس لڑکی کے ہاتھ بہت نازک اور لرز رہے ہیں۔

"میں... میں بہت معذرت چاہتی ہوں،" عریشہ نے دھیمی آواز میں کہا۔

زینب بیگم نے عریشہ کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولیں، "بیٹا، چھوڑو اسے۔ بھلا یہ تم سے زیادہ صاف ہے۔" پھر انہوں نے عریشہ کے معصوم اور خوبصورت چہرے کو غور سے دیکھا اور شایان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "میرے بیٹے کے سوٹ کی اتنی فکر نہ کرو، بس یہ بتاؤ کہ تم اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو؟"

شایان مداخلت کرتے ہوئے بولا، "امی، یہ مس... عریشہ ہیں۔ مجھے لگتا ہے میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے... شاید بلیو ایریا کی طرف؟" اس نے دانستہ طور پر کاشان احمد کارپوریشن کا نام نہیں لیا۔

عریشہ کو لگا جیسے وہ پھر کسی خطرناک جال میں پھنس رہی ہو۔ "جی... میں نے ابھی وہیں ایک دفتر میں نوکری شروع کی ہے۔"

شایان کا جادو:

شایان نے ایک قدم آگے بڑھا کر اپنا ہاتھ مصافحہ کے لیے آگے بڑھایا۔ "میرا نام شایان احمد ہے۔ اور یہ میری والدہ ہیں۔ آپ کا دن خوشگوار ہو۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے نئے سفر میں کامیابی ملے۔"

عریشہ نے ہچکچاتے ہوئے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ شایان کا ہاتھ بہت مضبوط اور پر اعتماد تھا۔ اس کی باتوں میں ایک عجیب سا اطمینان تھا۔

"شکریہ، مسٹر شایان،" عریشہ نے کہا۔

شایان نے اپنی ماں کی طرف دیکھا، "امی، وہ سامنے والا بینچ خالی ہے۔" وہ عریشہ اور ارہامہ کو ایک آخری مسکراہٹ دے کر، اپنی ماں کو لے کر آگے بڑھ گیا۔

عریشہ اور ارہامہ جیسے پتھر کی مورت بن کر انہیں جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔

"شایان احمد!" ارہامہ نے سرگوشی کی۔ "یہ تو وہی ہے جس کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں۔ بلی آنکھوں والا بزنس مین۔ کتنا دلکش ہے! اور کتنا مختلف ہے تمہارے شیطان باس سے؟ "

''ایک لمحے کے لئے عریشہ کی نظر شایان پر ضرور ٹھہری اُسے ایک عجیب سا احساس ہوا جسے وہ چاہ کر بھی نہ سمجھ سکی''

عریشہ کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ وہ ابھی بھی شایان کے چہرے کی روشنی اور کاشان کے چہرے کی تاریکی کا موازنہ کر رہی تھی۔ وہ ایک ہی خاندان کے دو بالکل متضاد لوگ تھے۔ عریشہ نے ابھی تو صرف ایک دروازہ عبور کیا تھا، مگر یہ ملاقات اس کی زندگی میں ایک اور موڑ لانے والی تھی۔

باب سوم کا اختتام

—------------------------------------------------

پری اور شیطان کی کہانی

باب چہارم: نرمی کا پردہ اور تاریکی کا راستہ

بروٹ کی واپسی:

دو دن کی مہلت ختم ہو چکی تھی اور آج کاشان احمد کی واپسی کا دن تھا۔ عریشہ تیسویں منزل پر، اپنی چھوٹی سی میز پر بیٹھی تھی، جہاں ہر آنے والے منٹ کی دھمک اس کے دل میں محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے جمشید کی دی ہوئی تمام فائلیں، ملاقاتوں کا شیڈول اور پچھلے ہفتے کے معاہدوں کے خلاصے اس ترتیب سے رکھے تھے کہ ایک عام کلرک کا کام بھی ایک ماہر تجزیہ کار کا دکھائی دے۔

جیسے ہی لفٹ میں 'گنگ' کی آواز آئی، کاشان کی آمد کا خوفناک سگنل مل گیا۔ بروٹ اندر داخل ہوا، اس کی موجودگی کمرے کی یخ بستہ فضا کو مزید منجمد کر گئی۔ اس نے لاہور میں کی گئی ڈیل کی کامیابی کے تاثرات چہرے پر سجا رکھے تھے۔

عریشہ نے فوراً تعظیم میں سر جھکایا۔

کاشان اپنے آفس کے دروازے پر رکا، اور اس کی تیز، سفاک نگاہیں عریشہ کی طرف اٹھیں۔ اس نے بغیر کچھ کہے، اشارے سے اسے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔

عریشہ لرزتے قدموں کے ساتھ اس کے تاریک دفتر میں داخل ہوئی۔

غیر متوقع نرمی اور وارننگ:

کاشان اپنی چمڑے کی سیاہ کرسی پر بیٹھا اور عریشہ کے تیار کردہ بریفنگ فولڈر کو اٹھا کر دیکھا۔ وہ فائلز کے صفحات تیزی سے پلٹتا رہا، جیسے کسی کتاب کے غیر دلچسپ صفحات کو نظرانداز کر رہا ہو۔ اچانک وہ رکا۔ اس کی ٹھنڈی انگلی ایک خاص صفحے پر ٹھہر گئی۔

"تمہاری ترتیب... یہ حیرت انگیز ہے۔" کاشان نے دھیمی آواز میں کہا۔ یہ آواز اتنی غیر متوقع طور پر نرم تھی کہ عریشہ کو لگا جیسے اس کے کان دھوکہ دے رہے ہیں۔ اس لہجے میں وہی غرور تھا، لیکن اس کے ساتھ ایک سرد، نپی تلی تعریف بھی تھی۔

عریشہ حیران رہ گئی۔ "شکریہ... شکریہ سر۔"

کاشان نے فائل میز پر پھینکی۔ "میں نے توقع نہیں کی تھی کہ تمہارے جیسی... معصوم لڑکی میں اتنی جان ہوگی کہ تم صرف دو دن میں یہ سب سمجھ لو گی۔" اس نے لفظ 'معصوم' پر خاص طور پر زور دیا، جس سے عریشہ کو پرانے انٹرویو کا خوف یاد آ گیا۔

پھر یکدم اس کے چہرے کی نرمی شعلے کی طرح بجھ گئی اور وہ دوبارہ بروٹ بن گیا۔ "لیکن یہ یاد رکھنا، پری۔ یہاں صرف ہنر کی قدر نہیں ہوتی۔ یہاں صرف میری آنکھ کو بھانے والے لوگ زندہ رہتے ہیں۔ تم نے ابھی ایک دروازہ کھولا ہے، لیکن اگر تم نے غلط دروازے کی طرف قدم بڑھایا، تو تم صرف اپنی نوکری نہیں کھو گی..." کاشان اٹھ کھڑا ہوا اور شیشے کی دیوار کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہو گیا۔ "تم اپنے والدین کا سہارا تو کھو گی ہی، مگر اسلام آباد کے اس شہر میں... تمہیں شاید دوبارہ کوئی اور دروازہ ہی نہ ملے۔"

یہ ایک واضح، لٹکتی ہوئی دھمکی تھی۔ عریشہ نے محسوس کیا کہ وہ اسے صرف خوفزدہ نہیں کر رہا تھا، وہ اسے خرید رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر اندر سے ٹوٹ کر رہ گئی، لیکن اس کی آنکھوں میں اب محض خوف نہیں، بلکہ ضد تھی۔

تاریک رازوں کا پردہ:

پورے دن کام کے دوران، عریشہ کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ اس کے باس کے کاموں میں کچھ گڑبڑ ہے۔ شام ڈھل چکی تھی اور آفس میں صرف وہ اور جمشید تھے۔ جمشید کسی اہم فون کال پر باہر گیا تو عریشہ نے اس مہلت کو غنیمت جانا۔

اس نے جمشید کی میز پر پڑا کاشان کا نجی لیپ ٹاپ دیکھا، جو اتفاقاً کھلا رہ گیا تھا۔ اس نے ہلکے ہاتھ سے ماؤس ہلایا۔ اسکرین پر ایک مرموز فولڈر کھلا ہوا تھا، جس کا نام تھا: 'پروجیکٹشیڈو'۔

اس نے ہمت کر کے اس فولڈر کو کھولا۔ اندر کئی انتہائی خفیہ فائلوں میں سے ایک پر عریشہ کی نظر پڑی۔ یہ کراچی کے ایک پرانے بحری جہاز کے سودے سے متعلق دستاویزات تھیں، جس کی مالیت کاغذات میں کروڑوں میں دکھائی گئی تھی، مگر اصل ٹرانزیکشن کی رقم اس سے آدھی تھی۔ یہ واضح طور پر منی لانڈرنگ یا غیر قانونی تجارت کا اشارہ تھا۔ عریشہ کے جسم میں ایک جھٹکا سا لگا۔ اس کی نوکری ایک شیطان کے غیر قانونی کاموں کا حصہ بننے جا رہی تھی۔ اس نے فوراً فائل کو بند کیا اور اس کی لوکیشن یاد رکھی۔

بروٹ کا معصوم ماضی:

کاشان نے عریشہ کو ایک پرانے اسٹوریج روم کی چابی دی تھی تاکہ وہ اس کے کچھ پرانے اور ذاتی کاغذات کو ڈیجیٹل فائلز میں منتقل کر سکے۔ خوف کے باوجود، عریشہ نے یہ کام فوراً شروع کیا۔

اسٹیل کے ٹھنڈے، دھول بھرے کمرے میں، عریشہ کو ایک زنگ آلود صندوق میں ایک پرانا، چمڑے کا خستہ حال ڈائری ملی۔ یہ اس وقت کی تھی جب کاشان احمد صرف ایک نو عمر لڑکا تھا۔

ڈائری کے بیچ میں ایک سیاہ و سفید تصویر تھی۔ اس تصویر میں کاشان، وہی خوفناک بروٹ، ایک مسکراتے، نرم دل نوجوان کے روپ میں کھڑا تھا— چہرے پر کوئی سختی نہیں، صرف خواب اور امید۔ وہ اپنی چھوٹی انگلی ایک اور خوبصورت، ہنستی ہوئی لڑکی کی چھوٹی انگلی سے جوڑ رہا تھا۔ دونوں کی آنکھوں میں دنیا فتح کرنے کی چمک تھی۔

تصویر کے نیچے کاشان کی ہی ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر تھی: "میں تمہیں ہمیشہ ہر تاریکی سے بچاؤں گا، میری ننھی پری۔ زندگی کی کوئی تلخی ہمیں جدا نہیں کر سکتی۔"

عریشہ نے تصویر اور تحریر کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔وہ اور کوئی نہیں بلکہ کاشان کی بچپن کی دوست تھی جسے اس نے حالات کی تلخیوں کی وجہ سے کھو دیا تھا شاید -یہ وہ تلخیاں تھیں جنہوں نے اس معصوم نوجوان کو بروٹ میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ کاشان صرف ایک شیطان نہیں، بلکہ ایک ٹوٹا ہوا انسان تھا جسے کسی گہرے درد نے کھا لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگوں کو توڑنا چاہتا تھا۔ عریشہ جان گئی کہ اس کی جنگ صرف ایک نوکری کے لیے نہیں، بلکہ ایک ایسے انسان کے ساتھ تھی جو اپنی ہی تاریکی کا شکار تھا۔

یہ تب کی بات ہے جب کا شان سکول میں تھا اس کے دو دوست تھے جن میں اسکی جان بستی تھی ایک دن اُسکی دوست سکول نہیں آئی تو وہ اور اُسکا دوسرا دوست اس کے گھر گئے جہاں انہیں معلوم ہوا کہ انکی دوست کو اُسکی سوتیلی ماں نے مارا ہے جس وجہ سے اس کی نانی اسے اپنے ساتھ گاؤں لے گئی 

—--------------------------------------------------------

'کا شان ایک سینسیٹو بچہ تھا اپنے ہر رشتے کا اُس سے دور جانا اس کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتا تھا اس کے علاوہ اس کے والد کا اُسکی ماں سے بے نیاز اور سخت رویہ بیرون ممالک میں بزنس کے لئے آنا جانا اور اُس پر توجہ نہ دے پانا ان سب چیزوں کی وجہ سے کا شان احساس کمتری اور محرومی کا شکار ہو گیا اور والدین کے ہوتے ہوئے اسے ان رشتوں سے پیار نہیں ملا جس کے چلتے اس نے خود کو رشتوں سے دور کر دیا اور فیصلہ کیا کہ اپنے جذبات اور احساسات کو کبھی خود پر حاوی نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنی کوئی کمزوری بننے دی '

باب چہارم کا اختتام

—------------------------------------------------

پری اور شیطان کی کہانی

باب پنجم: سنہری قفس کی دعوت

شایان کا اقدام: فکر کا سایہ

 (F-9) پارک میں عریشہ سے مختصر ملاقات کے بعد، شایان احمد کا دل بے چین تھا۔ اسے یاد تھا کہ عریشہ اسی بلند و بالا عمارت میں کام کرنے گئی تھی جس کا مالک اس کا بھائی، کاشان احمد (بروٹ)، تھا۔ شایان، جو اپنی نپی تلی چالوں اور دور اندیشی کے لیے مشہور تھا، جانتا تھا کہ کاشان کے قریب کوئی معصوم روح زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رہ سکتی۔

شام کو، اس نے اپنی والدہ زینب بیگم کو فون کیا، جو کاشان کے ساتھ ان کے مشترکہ خاندانی ولا میں مقیم تھیں۔

"امی، کاشان کے آفس میں ایک نئی لڑکی آئی ہے، عریشہ۔" شایان نے رسمی لہجے میں پوچھا۔ "کیا آپ نے اس کے بارے میں کچھ سنا ہے؟"

زینب بیگم کا لہجہ فکرمند تھا۔ "ہاں، میں نے کاشان کو فون پر اس کا ذکر کرتے سنا تھا۔ وہ اسے 'انتہائی قابل' اور 'غیر معمولی' کہہ رہا تھا۔ یہ کاشان کے منہ سے غیر معمولی بات ہے۔ لیکن کیوں، میرے بیٹے؟"

"کچھ نہیں، امی۔" شایان نے جھوٹ بولا۔ "مجھے بس... اس کی آنکھوں میں بہت زیادہ ڈر اور مجبوری نظر آئی تھی۔ وہ ایک پری کی طرح معصوم ہے۔ مجھے فکر ہے کہ کاشان اس کی معصومیت کا فائدہ نہ اٹھائے۔"

نہ جانے کیا تھا اس پری کی معصومیت میں جو بلی آنکھوں کا شہزادہ اُس کے لئے اس قدر فکر مند تھا يا پھر اپنے بھائی کی حرکتوں سے اچھے سے واقف تھا - شایان اور کا شان میں اتنا زیادہ پیار نہیں تھا لیکن پھر بھی اسے اپنے بھائی کی غیر معمولی سی فکر تھی -

زینب بیگم نے آہ بھری۔ "اس گھر میں معصومیت ایک مہنگی چیز ہے، شایان۔ لیکن فکر نہ کرو، وہ اپنی ماں کے لیے بہت اہم ہے۔"

بروٹ کی چال: یومِ پیدائش کی دعوت

اگلے دن، کاشان کے آفس میں ایک غیر معمولی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ عریشہ، 'پروجیکٹ شیڈو' کا راز جاننے کے بعد، ہر فائل کو خوف اور احتیاط سے دیکھ رہی تھی۔ اسی دوران جمشید نے اس کے سامنے ایک نفیس دعوت نامہ لا کر رکھا۔

"مس عریشہ، کاشان صاحب کا کل یومِ پیدائش (Birthday) ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ شام کو ان کے مارگلہ ہلز کی طرف بنے نئے عمدہ ولا میں تشریف لائیں۔"

عریشہ ہکا بکا رہ گئی۔ "میں؟ لیکن میں تو صرف... ایگزیکٹو اسسٹنٹ ہوں۔"

جمشید نے بغیر کسی جذبات کے وضاحت کی۔ "یہ کوئی سماجی دعوت نہیں ہے۔ یہ دراصل کام کی ایک تفصیلی میٹنگ ہے۔ آپ کو تمام خاندانی معاملات، بزنس ڈیلز، اور ان کے ذاتی شیڈول کی تفصیلات براہ راست ان کے خاندان کو سمجھانی ہیں۔ کاشان صاحب چاہتے ہیں کہ آپ کل سے ان کے انتہائی نجی کام کی فائلز بھی سنبھالیں۔"

یہ ایک سنہری قفس میں قید ہونے کا رسمی دعوت نامہ تھا۔ کاشان چاہتا تھا کہ وہ اسے نہ صرف اپنی ذاتی سیکرٹری بنائے، بلکہ اسے اپنے خاندان کی آنکھوں کے سامنے بھی لائے، تاکہ اس پر مزید دباؤ ڈالا جا سکے۔ انکار کا مطلب نوکری کا خاتمہ، اور قبول کرنے کا مطلب مزید گہری دلدل میں پھنسنا تھا۔ اپنے والدین کے لیے، عریشہ نے ہاں کہہ دی۔ اور پھر مجبوریوں کے پھندے نازک بیٹیوں سے اُن کی ہنسی چھین لیتے ہیں 

ولا میں داخلہ: عریشہ کا تعارف

اگلی شام، عریشہ ایک ہلکے نیلے رنگ کے سوٹ میں، خوف اور تجسس کے ملے جلے جذبات لیے، کاشان احمد کے پرتعیش ولا پہنچی۔

پری کا حسن

نہ پَر تھے، نہ کوئی ساز و سامان، یہ پری تھی

فقط آنکھوں کی دنیا، دل کی معصوم ضیاء تھی!

عوبالی آنکھیں:

وہ موتیوں سے بنی، گہری اور شفاف آنکھیں،

جن میں جھلملاتی تھی، ہر خواب کی اک جھلک۔

جن میں بستی تھی، ماں باپ کی دعاؤں کی چمک۔

خموش نظروں میں بھی، اک انجانی سی صدا تھی۔

لگتا تھا، آسمان نے ساری نیکی ان میں سمو دی ہے،

وہ پری تھی، مگر بنا پروں کے دنیا میں کھوئی تھی۔

رخسار کا تِل:

رخسار پر وہ چھوٹا سا سیاہ تِل پری کا،

جیسے چاند کی قید میں کوئی ننھا سا ستارہ ہو۔

حسنِ یوسف پہ قدرت کا کوئی اشارہ ہو۔

وہ اک متاعِ جان تھا، اک خاص نشاں، اک طلسم تھا۔

وہ معصومی کا نقطہ، وہ دِل کی دھڑکنوں کا قلم تھا۔

جسمانی خاکہ:

وہ نازک سی گڑیا، وہ شبنم کی طرح پاکیزہ،

جس کے قدموں سے جاگتی تھی ہر امید تازہ۔

جس کے لہجے میں چھپا تھا شائستہ لہجے کا جادو۔

اسے دیکھ کر تو بروٹ کا بھی دل نرم ہو گیا تھا،

وہ صرف ایک لڑکی نہیں، محبت کا قانون ہو گئی تھی۔

وہ دل کی پری تھی، وہ روح کی ہر راحت جس سےبروٹ کومحبت ہوگئی تھی،!

 یہ ولا اسلام آباد کے ایک انتہائی پوش علاقے میں تھا، جہاں کی فضا میں دولت کی مہک رچی ہوئی تھی۔

ولے کی عظمت عریشہ کے چھوٹے سے گھر کے بالکل برعکس تھی۔ اندر کی سجاوٹ نفاست اور غرور کا امتزاج تھی۔ مرکزی ہال میں کاشان کا پورا خاندان موجود تھا۔

کاشان نے کٹ گلاس کے گلاس میں مشروب لیے مسکراتے ہوئے عریشہ کا تعارف کرایا۔ "یہ ہیں مس عریشہ۔ میری نئی اور انتہائی قابل ایگزیکٹو اسسٹنٹ۔ عریشہ، یہ ہے میری امی زینب بیگم، اور میرے چچا جان غلام احمد، اور یہ میرا چھوٹا بھائی، شایان احمد۔"

شایان کی حیرت:

شایان نے عریشہ کو اس طرح دیکھا جیسے وہ اس ماحول میں ایک قیمتی اور نازک شے ہو جسے کہیں سے غلطی سے یہاں لا کر رکھ دیا گیا ہو۔ اس کی بلی آنکھوں میں وہی تشویش تھی جو اس نے پارک میں محسوس کی تھی۔

کوئی اتنامعصوم کیسے ہو سکتا ہے اتنی پرکش آنکھیں اور رخسار کا وہ تل اسے چاند پر داغ محسوس ہوتا تھا 

میں اب سمجھا تیرے رخسار پر اس تل کا مطلب 

روشن چراغ پر دربان بٹھا رکھا ہے —-------بے اختیار شایان کے منہ سے پھسلا تھا سد شکر کسی نے نوٹ نہیں کیا تھا اس ردعمل کو وہ خود بھی نہیں سمجھ پایا تھا -

زینب بیگم نے عریشہ کو گلے لگا لیا۔ "تم تو بالکل ہی چھوٹی سی ہو، بیٹا! تمہارا چہرہ بالکل معصوم ہے۔ ارے! یہ تو بالکل پری کی طرح لگتی ہے!"

شایان کے چچا زاد بھائی نے ہنس کر کہا، "ٹھیک کہا، پری۔ یہ ہمارے کاشان کے تاریک دفتر میں ایک روشنی کا ٹکڑا بن کر آئی ہے۔یہ جملہ کا شان کی چھوٹی بہن نے بولا تھا جس کا نام مسکان تھا احمد برادرز کی اکلوتی بہن جسےبہت لاڑپیار سے پالا گیا تھا وہ اتنی ہی خوبصورت تھی جتنا کے اُسکا نام"

یہ سن کر، شایان کی آنکھیں کاشان کے چہرے پر جم گئیں۔ کاشان ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ سب کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ نام عریشہ کے دل میں خوف اور اپنے ارادوں کو پورا کرنے کی ہوس پیدا کر رہا ہے۔

اس سب کے بعد کیک کٹنگ ہوئی اور سب نے کا شان کو بہت سے تحائف دیئے جنہیں سائڈ پر کرتا وہ پری کی طرف گیا اور بلکل اس کے سامانے جا کھڑا ہوا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا اور پھر سرگوشی کی کے مس پری آپ میرے لیے تحفہ نہیں لائیں تو دانستہ طور پر عریشہ نے تحفے کے ڈبہ کا شان کی طرف بڑھادیا لرزتے ہوئے ہا تھوں سے جس پر بروٹ کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی عجب سی وحشت ناک -

کیا ہے بسی تھی کیا ہی مجبوری تھی 

بہت سی خواہشیں ابھی ادھوری تھی 

جس سے وحشت تھی اس کے قریب تر

جس قربت تھی بس اسی سے دوری تھی 

پری اور شیر کی ٹکر:

عریشہ نے، جس کی تعریف کی جا رہی تھی مگر دل خوف سے دھڑک رہا تھا، شایان کی طرف دیکھا۔ شایان اس کے قریب آیا اور دھیمی، سرگوشی والی آواز میں صرف اتنا کہا، "تم ٹھیک ہو، پری؟ یہ جگہ تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔کوئی کسی کی بے لوس فکر کیسے کر سکتا ہے ایک لمحے کے لیے پری نے سوچا تھا جو اس بات سے انجان تھی کے محبت تو نام ہی بے لوس خلوص کا ہے جس میں ملاوٹ نہیں ہوتی"

عریشہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ شایان کی آواز میں وہ نرمی اور سچائی تھی جس کی اسے اس وقت سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ "مجھے... یہ کرنا ہے۔" اس نے آہستہ سے جواب دیا۔

کاشان نے یہ منظر دیکھ لیا تھا۔ وہ فوراً عریشہ کے پاس آیا اور ایک گلاس اسے پکڑاتے ہوئے، مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ بولا: "پری، تمہارا کام اب شروع ہو رہا ہے۔ ذرا شایان اور زینب بیگم کو پچھلے سال کی ڈیلز کی تفصیلات سمجھاؤ۔ تمہاری ہر تفصیل یہاں سب کے لیے بہت اہم ہے۔"

یہ کہتے ہوئے اس نے عریشہ کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا— یہ ایک لمس نہیں، ملکیت کا اعلان تھا۔ عریشہ جان گئی تھی کہ یہ ولا اس کے لیے ایک سنہری قفس بن چکا ہے اور اس کی جنگ اب صرف نوکری بچانے کی نہیں، بلکہ اپنی معصومیت اور روح بچانے کی ہے۔ وہ ایسی گڑیا تھی جو نہ جانے کس الجھن میں پھنس چکی تھی۔

کا شان نے نہایت تلخ لہجے میں شایانِ سے کہا تھا کہ پری سے دور رہو میں پری کے قریب جانے والوں کے لئے بروٹ ہوں شیطان اُس نے گویا کھا جانے والے انداز میں کہا -

باب پنجم کا اختتام

—------------------------------------------------

پری اور شیطان کی کہانی

باب ششم: جال، الجھن اور چمکدار آنکھیں

کاشان کا پہلا وار 

یومِ پیدائش کی دعوت کے اگلے ہی دن، عریشہ نے کاشان احمد کے دفتر میں محسوس کیا کہ قفس کا دروازہ پوری طرح بند ہو چکا ہے۔

 کاشان کے رویے میں اب مزید تصنع اور ملکیت کا احساس تھا۔

"پری، اب تم خاندان کا حصہ ہو۔" کاشان نے اپنی میز پر ٹیک لگاتے ہوئےکسی مقصد کے تحت کہا۔ "اور خاندان کے افراد میرے سب سے ذاتی معاملات سنبھالتے ہیں۔"

اس نے ایک بھاری، غیر معمولی چابی عریشہ کی طرف سرکائی۔ "یہ ہمارے نجی سیف کی چابی ہے۔ اس میں صرف دو فولڈر ہیں: ایک میرے وراثت کے کاغذات، اور دوسرا... 'پروجیکٹشیڈو' کی اصل کاپیاں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ان دونوں فولڈرز کو روزانہ چیک کرو اور رات کو میرے جانے سے پہلے انہیں محفوظ کر دو۔ یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔"

عریشہ کے ہاتھ تھر تھرانے لگے۔ یہ پہلا وار تھا۔ کاشان اسے صرف غیر قانونی کاموں کے بارے میں جاننے والا نہیں بنا رہا تھا، بلکہ اسے ان کی حفاظت کا ذمہ دار بنا کر براہ راست اس سازش میں شامل کر رہا تھا۔ اب وہ خاموش رہنے پر بھی مجرم تھی۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ عریشہ کو پیسے کی سخت ضرورت ہے اور وہ ڈر کر بھی انکار نہیں کر پائے گی۔

عریشہ نے بے بسی سے چابی اٹھائی، وہ ایک ایسی الجھن میں پھنس چکی تھی جہاں سے نکلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔

ارہامہ سے دل کی بات:

دوپہر کے کھانے کے وقفے میں، عریشہ واش روم میں بند ہو گئی اور اپنی بہترین دوست ارہامہ کو فون کیا۔ عریشہ کی آواز میں نمی اور خوف تھا۔

"ارہامہ، یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ؟" عریشہ نے ہچکیوں کے بیچ کہا۔ "وہ مجھے اپنے کالے دھندے میں شامل کر رہا ہے۔ آج اس نے مجھے اس 'پروجیکٹ شیڈو' کی اصل چابی دے دی ہے۔ میں خوفزدہ ہوں! میں اپنے ابا کے لیے یہ نوکری کر رہی ہوں، لیکن میری روح گھٹ رہی ہے۔"

ارہامہ کا لہجہ تشویش سے بھرپور تھا۔ "پری، تم باہر نکل آؤ۔ یہ مت کرو۔ ہم کوئی دوسرا راستہ نکالیں گے۔"

"دوسرا راستہ؟" عریشہ نے تلخی سے کہا۔ "کون دے گا مجھے اتنی تنخواہ کہ ابا کا قرض اتر جائے؟ اس شیطان نے مجھے میری مجبوری کے جال میں پھنسا لیا ہے۔ اب میں واپس نہیں جا سکتی، میں نے پہلا وار سہہ لیا ہے۔"

ارہامہ نے اسے حوصلہ دیا، لیکن عریشہ جانتی تھی کہ اس مسئلے کا حل ارہامہ کے پاس نہیں، بلکہ اس خوفناک عمارت سے باہر کسی اور کے پاس ہے۔

باپ کی بگڑتی حالت اور پری کا غم:

اسی شام، جب عریشہ دفتر سے نکلی، تو اسے گھر سے شائستہ بیگم کا پریشان کن فون آیا۔ "عریشہ! جلدی گھر آؤ۔ تمہارے ابا کی طبیعت اچانک بہت بگڑ گئی ہے۔ انہیں سینے میں شدید درد ہوا ہے اور ہم انہیں فوراً ہسپتال لے جا رہے ہیں۔"

یہ خبر سن کر عریشہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ اس کی محنت کا مقصد اب خطرے میں تھا۔ جب وہ ہسپتال پہنچی تو ڈاکٹر نے بتایا کہ ارسم کو فوری طبی امداد اور ایک لمبی علاج کی ضرورت ہے، جس میں کافی پیسہ لگے گا۔

عریشہ ہسپتال کے ٹھنڈے کوریڈور میں بیٹھی، اس کی آنکھیں خشک تھیں، مگر دل ٹوٹ چکا تھا۔ وہ محض ایک ایگزیکٹو اسسٹنٹ نہیں تھی، وہ اب اپنے گھر کا واحد سہارا تھی۔ اس غم اور پریشانی کی وجہ سے اس کی معصومیت اور مجبوری دوگنی ہو گئی۔ اسے اب یہ نوکری کسی بھی قیمت پر رکھنی تھی، چاہے اس کے لیے اسے شیطان کا آلہ کار ہی کیوں نہ بننا پڑے۔

عریشہ کی مدد کی پکار:

اگلے دن، عریشہ جانتی تھی کہ وہ جمشید یا کاشان کے سامنے اپنا دکھ ظاہر نہیں کر سکتی۔ اسے ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو طاقتور بھی ہو اور مہربان بھی۔ اسے شایان احمد یاد آیا— بلی آنکھوں والا ڈیشنگ بزنس مین جس کی باتوں میں اطمینان تھا اور جس کی ماں نے اسے 'پری' کہا تھا۔

ہمت کر کے، عریشہ نے اپنی تمام تر پریشانیوں کے ساتھ، شایان کے دفتر کے نمبر پر کال کی اور ایک ملاقات کا وقت مانگا۔ شام کو، شایان احمد نے اسے اپنے ذاتی دفتر میں آنے کی اجازت دی۔

عریشہ جب شایان کے شاندار، لیکن پرسکون دفتر میں داخل ہوئی، تو اس کی آنکھوں میں گہرے غم اور خوف کی پرچھائیاں تھیں۔ وہ بمشکل کرسی پر بیٹھی۔

شایان نے اسے نہایت نرمی سے دیکھا۔ "پری... عریشہ۔ تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم بہت پریشان ہو۔ کاشان نے... کیا کچھ کیا ہے؟"

اس نرمی پر عریشہ کا غم آنسو بن کر بہہ نکلا۔ وہ مزید خود کو سنبھال نہ سکی۔ اس نے روتے ہوئے، خوفزدہ، ٹوٹے ہوئے الفاظ میں ساری بات کہہ ڈالی: کاشان کی دھمکیاں، 'پروجیکٹ شیڈو'، منی لانڈرنگ کے اشارے، اور اس کے باپ کی بگڑتی ہوئی صحت۔

"وہ مجھے پھنسا رہا ہے، مسٹر شایان۔" عریشہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ "مجھے آپ کی مدد چاہیے، اس سے پہلے کہ میں ہمیشہ کے لیے اس تاریکی کا حصہ بن جاؤں!"

شایان کی آنکھوں میں چمک:

شایان خاموشی سے سنتا رہا۔ اس کی خوبصورت بلی آنکھیں عریشہ کی حالت پر گہری ہوتی جا رہی تھیں۔ جب عریشہ نے بات ختم کی تو شایان نے آہستہ سے کہا، "کاشان کی چال کامیاب ہو گئی۔ اس نے تمہیں اس طرح پھنسایا ہے کہ تم اس سے دور نہیں جا سکتیں۔"

یہ تلخ حقیقت تھی۔ لیکن پھر، شایان کے چہرے پر ایک ٹھوس عزم، ایک پرانا انتقام، اور عریشہ کے لیے بے ساختہ احترام کی چمک ابھری۔ اس کی بلی آنکھوں میں ایک نئی، چمکدار روشنی آئی۔ یہ صرف کشش نہیں، یہ ہیرو کا عہد تھا— اس معصوم پری کو اس تاریک قفس سے آزاد کرانے کا عہد، جس میں اس کے اپنے بھائی نے اسے دھکیل دیا تھا۔

"عریشہ، پری۔" شایان نے عزم سے بھری آواز میں کہا۔ "تمہارے والد کی دیکھ بھال میرا فرض ہے۔ تم اپنی نوکری جاری رکھو گی، لیکن اب تم اکیلی نہیں ہو۔ تم ان فائلوں کو سنبھالو گی... مگر میرے لیے بھی۔"

باب ششم کا اختتام

پری اور شیطان کی کہانی

باب ہفتم: شک کی دہلیز اور خودداری کا امتحان

خفیہ رابطے اور بڑھتی قربت:

شایان احمد کے وعدے کے بعد، عریشہ کو ایک نئی طاقت ملی تھی۔ اس نے اگلے ہی دن ایک عام USB فلیش ڈرائیو، جو دراصل ایک چھوٹی سی خفیہ ڈیوائس تھی، شایان کے سپرد کر دی تھی۔ شایان نے عریشہ کو ہدایت دی تھی کہ وہ روزانہ شام کو 'پروجیکٹ شیڈو' کی فائلوں کو اس ڈیوائس کے ذریعے کاپی کرے اور اسے ایک محفوظ جگہ پر رکھ دے۔

اب عریشہ کا معمول دوہرا ہو گیا تھا۔ ایک طرف وہ کاشان (بروٹ) کے سامنے وفادار اسسٹنٹ بنی رہتی، اور دوسری طرف وہ شام کے اندھیرے میں چھپ کر ڈیٹا چوری کرتی۔ کام کی تفصیلات یا والد کی صحت کے بہانے، شایان اور عریشہ کی ملاقاتیں غیر محسوس طریقے سے بڑھنے لگی تھیں۔ کبھی وہ دونوں دفتر کے کیفے ٹیریا میں بیٹھے ہوئے کسی کاغذ پر 'خاندانی معاملات' پر بحث کرتے، اور کبھی شایان عریشہ کو ہسپتال سے گھر چھوڑتے ہوئے مختصر مگر معنی خیز گفتگو کرتا۔

ان کے درمیان ایک خفیہ رشتہ، ایک سازش کا معاہدہ، قائم ہو چکا تھا، جس کی بنیاد عریشہ کی مجبوری اور شایان کے عزم پر تھی۔ عریشہ کی ہر پریشانی پر شایان کی بلی آنکھوں میں فکر اور عزم کی چمک اور گہری ہو جاتی تھی۔

بلی آنکھوں کی شوخی اور پری کی خاموشی

وکٹر کا خوف (جو ابھی بروٹ ہی تھا) اور شایان کی چھیڑ چھاڑ ایک ہی چھت کے نیچے جاری تھی۔ عریشہ، کاشان کے دیے گئے خطرناک ٹاسک سے ذہنی طور پر پریشان تھی، لیکن شایان کی موجودگی اسے دنیا کی تلخیوں سے تھوڑی دیر کے لیے نکال دیتی تھی۔

شایان اکثر کاشان کے دفتر میں مختلف بہانوں سے آتا، اس کے ہاتھ میں فائلیں ہوتی تھیں، مگر اس کی نظریں صرف عریشہ کے ارد گرد گھومتی تھیں۔ ایک دن وہ عریشہ کی میز پر ایک فائل رکھ کر پلٹنے لگا۔

"ارے! یہ تو وہی سادہ سی پُھل جھڑی ہے، جسے دیکھ کر میرے بھائی نے اپنا پورا پٹاخوں کا سٹاک بیچ دیا تھا۔" شایان نے مسکرا کر کہا۔

عریشہ جو اپنے کام میں مگن تھی، سر اٹھا کر دیکھا۔ اس کی موتی آنکھیں کچھ دیر کے لیے حیران ہوئیں۔ وہ شایان کو جواب دینے کے بجائے صرف اسے دیکھ کر رہ گئی، جس کے رخسار پر ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔

"کیا ہوا؟ پری جی؟" شایان نے اپنی بلی آنکھوں کو مزید چمکاتے ہوئے پوچھا۔ "میرے بھائی کے دفتر کی ہوا لگ گئی ہے کیا؟ مجھے لگا تم کم از کم میری طرح ایک غصے والی شہزادی تو ہو گی۔"

عریشہ نے پھر بھی کچھ نہ کہا، بس ایک مسکراتی خاموشی کے ساتھ فائل پر دوبارہ جھک گئی۔ اس خاموشی نے شایان کو مزید تنگ کرنے کا موقع دیا۔

—--------------------------------------------------------

اگلے دن، لنچ بریک کے فوراً بعد، شایان نے عریشہ کی ٹرے سے اس کا آدھا بچا ہوا ایپل اٹھا لیا۔

"مس عریشہ! آپ کو معلوم ہے؟ مجھے آپ کے بارے میں ایک خفیہ معلومات ملی ہے۔"

عریشہ نے پہلی بار منہ کھولا۔ "کون سی؟" اس نے آواز کو دھیما اور سنجیدہ رکھنے کی کوشش کی۔

شایان نے سیب کو ایک بار دانتوں سے کاٹا اور آنکھ مار کر کہا، "یہ کہ آپ، کام کے دوران، سیبوں کو بھی اپنی پریشانیوں کا ساتھی بنا لیتی ہیں۔ یہ دیکھیں، آپ اسے آدھا چھوڑ گئی ہیں۔ یہ بیچارہ شایان احمد بن کر گھوم رہا ہے، جو آپ کے لیے آدھا نامکمل ہے۔"

عریشہ کو اس کی اس بات پر اندر ہی اندر ہنسی آئی۔ وہ اس کے بچکانہ انداز پر حیران تھی کہ کاشان کا بھائی، جو ایک بڑا بزنس مین تھا، اس طرح کے ٹیڑھے میڑھے ناموں سے اسے بلا رہا تھا۔

"مسٹر شایان احمد،" عریشہ نے آخر کار جواب دیا۔ "کم از کم آپ جیسا سیب اپنی جگہ پر پورا تو ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس میں صرف کھانے والے کی بے دھیانی کا قصور تھا۔"

شایان نے سیب پھینکنے کے بجائے اسے جیب میں ڈالا۔ "آہ! تو آپ کی نظر میں یہ ایک نامکمل شہزادہ ہے؟ ٹھیک ہے۔ لیکن خبردار، چھوٹے بھائی کی طرح، یہ بھی آدھا ہونے کے باوجود بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔"

شایان کا اشارہ اس کے اور کاشان کے درمیان کی کشمکش کی طرف تھا، جسے عریشہ سمجھ گئی اور اس کے چہرے پر ہنسی کا نشان فوراً سنجیدگی میں بدل گیا۔ شایان، اس کی پریشانی کی جھلک دیکھتے ہی، فوراً اپنا لہجہ بدل لیتا تھا۔

شایان کا اخلاقی مذاق:

"اچھا سنو،" شایان نے اب سنجیدگی سے کہا، "یہ تمہارے والد کی میڈیکل رپورٹس کی ایک فائل ہے۔ یہ میں نے پرسنل طور پر دیکھی ہے۔ اسے فوراً دیکھ لو اور جو بھی کمی ہو، مجھے بتانا۔"

شایان نے عریشہ کو کام کے نام پر اہم دستاویزات اور معلومات پہنچانا جاری رکھا، تاکہ وہ کاشان کے جال سے خود کو بچا سکے۔ اس کے لیے یہ سب محض کام کا حصہ تھا، مگر شایان کے لیے یہ محبت کی خفیہ کوڈنگ تھی۔ وہ اسے تنگ کرتا تھا، تاکہ وہ مسکرائے، اور کام دیتا تھا تاکہ وہ محفوظ رہے۔

عریشہ جانتی تھی کہ اس کی موتی آنکھیں اب اس بلی آنکھوں والے کی نگرانی میں تھیں۔ وہ اسے کبھی 'آدھا سیب' کہتا، کبھی 'بجلی کی پُھل جھڑی' اور کبھی 'خاموش گڑیا'، مگر ہر نام میں اس کے لیے ایک معصوم پیار کی جھلک تھی۔ اور عریشہ بس اسے دیکھ کر، تھوڑا سا مسکرا کر، اپنے کام میں دوبارہ مگن ہو جاتی۔

کاشان کا تیز شک:

کاشان احمد ایک ہوشیار شکاری تھا۔ اس کی نظروں سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی 'پری' اب اتنی ڈری ہوئی نہیں ہے۔ خاص طور پر، شایان کے اسلام آباد واپس آنے کے بعد عریشہ کے چہرے پر خوف کی جگہ ایک عجیب سا اطمینان نظر آتا تھا۔

ایک دن شام کو، کاشان اپنے آفس سے نکلا اور اس نے دیکھا کہ عریشہ نچلی منزل پر شایان کے دفتر سے باہر نکل رہی ہے، اور شایان دروازے پر کھڑا اسے دھیمی آواز میں کچھ سمجھا رہا تھا۔ وہ منظر کسی کاروباری شراکت سے زیادہ، کسی گہرے راز کو چھپانے والے دو لوگوں کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔

کاشان کا چہرہ غصے سے مزید سخت ہو گیا۔ وہ سیدھا عریشہ کی طرف آیا، اس کی آنکھیں تیکھی تلوار کی طرح تھیں۔

"مس عریشہ، میرا چھوٹا بھائی بڑا جذباتی ہے۔" کاشان نے ایک تیز، زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "میں حیران ہوں کہ تم اس کی 'تجارت' میں اتنی گہری دلچسپی لے رہی ہو۔ یاد رکھنا، اس کمپنی میں 'تجارت' صرف میرے نام سے ہوتی ہے۔ اور اگر تم اس کے ساتھ... زیادہ آزاد ہو جاؤ تو مجھے سخت فیصلہ کرنا پڑے گا۔"

یہ شک کی پہلی تلوار تھی جو عریشہ کے سر پر لٹک گئی۔ عریشہ نے فوراً اپنے آپ کو سنبھالا اور بے تاثر چہرے سے جواب دیا۔ "سر، شایان صاحب آپ کے خاندانی اثاثوں کی تقسیم پر ایک پرانی فائل کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ میں صرف آپ کے حکم پر عمل کر رہی ہوں۔"

کاشان کی آنکھوں میں لگی آگ بجھی نہیں، بلکہ اس کے شک نے ایک نئی شکل اختیار کر لی۔ وہ جانتا تھا کہ شایان اس کی پری پر ڈورے ڈال رہا ہے، اور کاشان کو یہ بات ایک پل کے لیے بھی گوارا نہیں تھی۔

خودداری کا امتحان:

اگلے دن، شایان نے عریشہ کو اپنے دفتر بلایا۔ اس کی میز پر ایک چیک بک اور قلم پڑا تھا۔

"عریشہ، مجھے تمہارے والد کی صحت کی خبر ملی ہے۔" شایان نے انتہائی نرمی سے کہا۔ "مجھے معلوم ہے کہ تم کیوں یہ نوکری کر رہی ہو۔ میرا ضمیر مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں تمہیں صرف معلومات چوری کرنے کے لیے استعمال کروں جبکہ تمہارے سر پر اتنا بڑا بوجھ ہو۔"

شایان نے چیک بک کھولی۔ "تمہیں یہ رقم واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے میری طرف سے مدد سمجھو۔ تمہارے ابا کا علاج فوری ضروری ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اس مجبوری کی وجہ سے کاشان تم پر مزید قابو پا سکے۔"

عریشہ کے چہرے پر ایک عجیب سی لالی چھا گئی۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے مشکل امتحان تھا۔ ایک طرف اس کے باپ کی زندگی بچانے کا موقع تھا، دوسری طرف اس کی خودداری۔

عریشہ نے، جھکنے کی بجائے، مضبوطی سے انکار کیا۔ اس کی آواز کانپ رہی تھی، مگر عزم پختہ تھا۔

"مسٹر شایان احمد۔" اس نے کہا۔ "میں نے آپ سے مدد مانگی ہے، لیکن بھیک نہیں۔ میرے باپ کی زندگی میری ذمہ داری ہے۔ میں جانتی ہوں کہ کاشان مجھے پیسے کے لالچ میں پھنسا رہا ہے۔ اگر میں نے آپ کی طرف سے یہ رقم لی... تو پھر میرا اور اس کاشان میں کیا فرق رہ جائے گا؟"

وہ اٹھی اور شایان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔ "میں یہ نوکری کروں گی، میں اس کے کالے دھندے آپ کو دکھاؤں گی، لیکن میں یہ اپنے پسینے کی کمائی سے کروں گی۔ میری ڈیل صرف انصاف کے لیے ہے، کسی خیرات کے لیے نہیں۔"

قفس میں نئی الجھن:

شایان احمد اس کی خودداری سے حیران رہ گیا۔ اس کی بلی آنکھوں میں اب عریشہ کے لیے صرف احترام اور حیرت تھی۔ اس پری کی معصومیت کے پیچھے ایک فولادی عزم تھا۔

"معاف کرنا، پری۔" شایان نے چیک بک بند کرتے ہوئے کہا۔ "میں نے تمہاری غیرت کو کم سمجھا۔"

عریشہ واپس کاشان کے دفتر کی طرف جانے لگی۔ راستے میں اسے ایک خوفناک احساس ہوا۔ اس نے شایان سے مدد مانگ کر اپنے آپ کو کاشان کے شر سے تو محفوظ کر لیا تھا، مگر اب وہ اس کے خفیہ جال میں بھی پھنس چکی تھی۔ وہ کاشان کی مرضی کے خلاف کام کر رہی تھی، مگر شایان کی مرضی پر۔ اس کی آزادی اور خود مختاری دونوں ہی خطرے میں تھیں۔ وہ اب دو بھائیوں کے درمیان ایک مہرہ تھی۔ یہ نوکری اسے ایک بھیانک دلدل کی طرف لے جا رہی تھی، اور اب اس دلدل کا رنگ سیاہ سے بدل کر سرمئی ہو چکا تھا— مگر دلدل اب بھی دلدل ہی تھی۔

باب ہفتم کا اختتام

—------------------------------------------------

پری اور شیطان کی کہانی

باب ہشتم: دو جال اور ایک نئی تقدیر

بروٹ کا پہلا ضربِ کاری:

کاشان احمد (بروٹ) کی آنکھوں میں شک کی آگ تھی، اور وہ اپنی 'پری' کا امتحان لینے کے لیے تیار تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ عریشہ کسی اور کے رحم و کرم پر ہو، خاص طور پر شایان کے۔

اگلے دن کاشان نے عریشہ کو ایک نجی میٹنگ کے لیے بلایا۔ اس کے چہرے پر خوفناک اطمینان تھا۔

"پری، ایک فوری اور حساس کام ہے۔" کاشان نے کہا۔ "اس فائل کو دیکھو؟ یہ 'المعراج اسپتال فاؤنڈیشن' کی ہے جہاں تمہارے والد زیرِ علاج ہیں۔"

عریشہ کا دل حلق میں آ گیا۔ کاشان کا اس کے والد کے ہسپتال کو اپنے غیر قانونی کام میں شامل کرنا اس کے لیے ایک براہ راست دھمکی تھی۔

اس فاؤنڈیشن کو اس وقت ایک بڑی رقم کی فوری ضرورت ہے۔" کاشان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "تمہیں یہ رقم میرے پرسنل اکاؤنٹ سے نکال کر ایک آف شور بینک اکاؤنٹ (Offshore Account) میں ٹرانسفر کرنی ہے، جو 'پروجیکٹ شیڈو' کا خفیہ راستہ ہے۔ اگر یہ ٹرانسفر آدھے گھنٹے میں نہ ہوا، تو فاؤنڈیشن کی تمام فنڈنگ منجمد ہو جائے گی، اور تمہارے والد کا علاج..." وہ رکا اور معنی خیز انداز میں بولا، "ہاں، میں نہیں چاہتا کہ کوئی مشکل پیش آئے۔ میں نے پہلے ہی اس کام کی ادائیگی تمہارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی ہے۔ یہ تمہاری تنخواہ ہے، لیکن اس کام کی قیمت بھی۔"

یہ ایک بھیانک جال تھا۔ کاشان نے عریشہ کو مجبور کیا کہ وہ نہ صرف منی لانڈرنگ میں حصہ لے، بلکہ اس کے باپ کے علاج کو بھی اس تاریکی سے جوڑ دے۔ عریشہ کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے ٹرانسفر مکمل کیا، اور اس کے دل میں ایک ٹھنڈی لہر دوڑ گئی کہ اب وہ کاشان کے جرم کی ایک مکمل شریک بن چکی ہے۔

آئیاس بات سے بے خبر کے اب وہ شایان کی محبت ہونے کے ساتھ ساتھ اب بروٹ کا جنون بھی بنتی جا رہی تھی نا جانے اس کی قسمت اب اسے کیا موڈ دکھانے والی تھی -

شایان کی تحقیقات اور خاندانی تنازع:

اسی دوران، شایان احمد اپنے نجی دفتر میں 'پروجیکٹ شیڈو' کی فائلوں پر جھکا ہوا تھا۔ عریشہ کے دیے گئے ڈیٹا نے اسے ایک ایسی حقیقت سے روشناس کرایا، جس نے اس کے دل و دماغ کو ہلا دیا۔ 'پروجیکٹ شیڈو' صرف ایک کالے دھندے کا نام نہیں تھا، بلکہ کاشان خاندان کے اصل اثاثوں کو ایک خفیہ منصوبے کے تحت نقصان پہنچا رہا تھا۔

شایان نے دریافت کیا کہ کاشان، اس غیر قانونی منصوبے کے ذریعے، ان کی والدہ زینب بیگم کے ٹریول اور ہیریٹیج ٹرسٹ فنڈز کو آہستہ آہستہ ختم کر رہا تھا، جس کا مقصد ماں کو مالی طور پر کمزور کر کے پوری کمپنی پر قبضہ کرنا تھا۔ یہ جان کر شایان کے اندر کا بیٹا اور غصہ جاگ اٹھا۔

وہ فوراً ولا پہنچا اور اس نے زینب بیگم، اپنے چچا، اور کاشان کو ایک ہنگامی خاندانی میٹنگ کے لیے بلایا۔

"یہ رہا ثبوت، امی!" شایان نے 'پروجیکٹ شیڈو' کی ایک نقل میز پر پھینک دی۔ "کاشان ہماری ماں کے نام پر بنائے گئے فنڈز کو بیرون ملک غیر قانونی طور پر منتقل کر رہا ہے۔ اس کا مقصد صرف آپ کو نقصان پہنچانا ہے!"

کاشان کے چہرے پر شیطانیت کی لہر دوڑ گئی، جبکہ زینب بیگم کی آنکھیں حیرت اور دکھ سے پھیل گئیں۔ "کاشان! کیا یہ سچ ہے؟"

"شایان ہمیشہ جذباتی رہا ہے، امی۔" کاشان نے بے دھڑک جواب دیا۔ "یہ صرف ایک اکاؤنٹنگ کی غلطی ہے، اور تم ایک نوکرانی کے دیے گئے ڈیٹا پر اعتبار کر رہے ہو؟"

"یہ 'نوکرانی' نہیں، یہ وہ پری ہے جس نے تمہارا بھیانک چہرہ میرے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔" شایان نے غصے سے کہا۔ خاندان میں ایک بہت بڑا تنازع کھڑا ہو چکا تھا۔ کاشان، زینب بیگم کو بہلانے کی کوشش کرنے لگا، لیکن شایان نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ] صرف ایک بروٹ نہیں، بلکہ اپنے خاندان کا بھی دشمن ہے۔

اسی لمحے بروٹ نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اس پری سے اس بات کا بدلہ لے کر رہے گا اس کی آنکھوں میں اب جنون کی جگہ غصے نے لے لی تھی -

عریشہ کی نئی تقدیر: رشتہ کا اعلان:

عریشہ ہسپتال میں اپنے والد ارسم کے پاس بیٹھی تھی۔ وہ اندر سے ٹوٹی ہوئی تھی کہ اس نے کاشان کے کہنے پر ایک جرم کا ارتکاب کیا۔اس کا ضمیر اسے اندر ہی اندر جھنجوڑ رہا تھا -

اور ضمیر کی آواز صرف زندہ دل لوگوں کو ہی سونائی دیتی ہے "اسی وقت اس کی والدہ شائستہ بیگم کا غمگین چہرہ اس کے سامنے آیا۔

عریشہ، مجھے معلوم ہے کہ تمہارے ابا کی صحت بگڑ رہی ہے۔" شائستہ بیگم نے نرمی سے کہا۔ "اور اس بگڑتی ہوئی حالت میں، تمہارے ابا اور میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم تمہیں اس طرح پریشانی میں نہیں دیکھ سکتے۔"

"کیا فیصلہ کیا ہے، امی؟" عریشہ نے خوفزدہ ہو کر پوچھا۔

"تمہارا بچپن کا رشتہ جو تمہارے چچا زاد بھائی الیان سے طے ہوا تھا، ہم چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد ہو جائے۔" شائستہ بیگم نے آنسو بہاتے ہوئے کہا۔ "تمہارے ابا کی یہی آخری خواہش ہے۔ الیان اچھا لڑکا ہے۔ یہ شادی تمہیں اس مالی دلدل سے نکال لے گی اور تمہارا مستقبل محفوظ ہو جائے گا۔"

عریشہ کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ وہ اب جس شخص کی وجہ سے اپنی روح کو داؤ پر لگا رہی تھی، اس سے مدد لینے سے پہلے ہی اس کے لیے نیا راستہ بند ہو چکا تھا۔ وہ ایک ایسی 'پری' تھی جسے ایک شکاری کے جال سے دوسرے خاندان کی ذمہ داری کے قفس میں منتقل کیا جا رہا تھا۔

بلی آنکھوں کا ٹکراؤ:

کچھ دیر بعد، شایان نے عریشہ کو اس کے گھر کے قریب ایک کیفے میں بلایا۔ شایان کا چہرہ سخت تھا، وہ غصہ اور شکست کے ملے جلے جذبات سے دوچار تھا۔

"تم نے یہ کیا کیا، عریشہ؟" شایان نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ "تم نے کاشان کے حکم پر وہ آف شور ٹرانسفر کیوں کیا؟ تم جانتی ہو کہ یہ منی لانڈرنگ تھی! تم اب براہ راست ملوث ہو!"

عریشہ نے پہلی بار شایان کے سامنے ایک بھی لفظ کا بہانہ نہیں بنایا۔ "اس نے میرے والد کے ہسپتال کی فنڈنگ سے دھمکی دی تھی! میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں اپنی ذمہ داری نبھا رہی تھی، مسٹر شایان۔ اور اب میں مزید نہیں نبھا سکتی۔"

اس نے اپنا سر جھکا لیا اور ٹوٹے ہوئے لہجے میں اپنی نئی تقدیر کا اعلان کیا۔ "میرا رشتہ میرے کزن الیان سے جلد ہونے والا ہے۔ میرے والدین چاہتے ہیں کہ اب میرا مستقبل محفوظ ہو جائے۔

''یہ سن کر شایان کو اپنا دل بند ہوتامحسوس ہوا یوں مانو جیسے کسی سے اسکی ساری زندگی کی جمع پونجی چھین لی ہو"-

No you can't do this 

وہ اپنے آپ سے کہہ رہا تھا اُسے اپنی سماعت پر یقین نہیں ہوا تھا 

ان باتوں سے شایان کے چہرے پر ایک ٹھنڈک چھا گئی۔ اس کی بلی آنکھوں کی چمک جو اب تک عزم سے بھری تھی، ایک پل میں ایک نئی، خطرناک آگ میں بدل گئی۔ اس نے خاندان میں جنگ شروع کر دی تھی، اس کی ماں کا اعتماد ٹوٹ چکا تھا، اور وہ یہ سب کچھ اس پری کو بچانے کے لیے کر رہا تھا— لیکن اب یہ پری کسی اور کے نام لکھی جا چکی تھی۔

"تم الیان سے شادی نہیں کر سکتی، پری۔" شایان نے دھیمی، مگر سخت آواز میں کہا۔ "اب جبکہ تم میرے اور کاشان کے درمیان کی جنگ کا اہم ترین حصہ بن چکی ہو، میں تمہیں کسی اور کے حوالے نہیں کر سکتا۔ تمہاری قسمت اب میری حفاظت میں ہے۔"

باب ہشتم کا اختتام

—------------------------------------------------

پری اور شیطان کی کہانی

باب نہم: بروٹ کا آخری جال اور مجبوری کا نکاح

کاشان کا قاتلانہ حملہ:

کاشان احمد (بروٹ) نے جب سنا کہ شایان خاندان میں بغاوت کر چکا ہے اور عریشہ کی قسمت میں الیان آ چکا ہے، تو اس کا شیطانی دماغ مزید تیزی سے کام کرنے لگا۔ اس نے سوچا: عریشہ یا تو اس کے قفس میں رہے گی یا پھر تباہ ہو جائے گی۔ کسی اور کی نہیں ہو سکتی!

کاشان نے فوراً اپنے سب سے وفادار اور سیاہ کارندے جمشید کو ایک نیا، بھیانک ٹاسک دیا۔ اس نے ایک ہی دن میں دو جال بچھائے۔

پہلا جال: الیان کے خلاف۔ الیان، جو ایک محنتی اور شریف کزن تھا، اس کے خلاف کاشان نے ایک پرانا اور جھوٹا کاروباری دھوکہ دہی (Business Fraud) کا مقدمہ تیار کروایا۔ کاشان نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کر الیان کو اسلام آباد سے باہر ایک چھوٹے شہر میں بلایا جہاں ایک گھنٹے کے اندر اندر اسے پولیس نے گرفتار کر لیا۔ الیان پر الزام تھا کہ اس نے ارسم کے پرانے کاروباری قرضوں کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ کی ہے۔

عریشہ کے گھر پر قیامت:

اسی شام، جب عریشہ ہسپتال سے گھر لوٹی تو اس کی والدہ شائستہ بیگم غم اور حیرت سے بے حال تھیں۔

"عریشہ! یہ کیا ہو گیا؟" شائستہ بیگم نے روتے ہوئے کہا۔ "الیان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کہہ رہی ہے کہ وہ تمہارے ابا کے نام پر کی گئی لاکھوں کی دھوکہ دہی میں ملوث ہے۔ یہ سب تمہارے ابا کی بیماری کی وجہ سے ہو رہا ہے!"

اور اس کے والد کی طبیعت اب اور بگڑتی جا رہی تھی اور دوسری طرف اس کے بچپن کی پسند دو عزیز خطرے میں تھے اور صرف اور صرف ایک انسان کی وجہ سے ….

عریشہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ کارنامہ کس شیطان کا ہے۔ کاشان نے نہایت چالاکی سے الیان کو اس جرم میں پھنسایا تھا، جس میں عریشہ خود ایک دن پہلے شریک ہو چکی تھی—منی لانڈرنگ!

بروٹ کا شیطانی سودا:

عریشہ اسی رات کاشان کے ولا پہنچی۔ اس کے چہرے پر خوف نہیں، بلکہ انتقام کی آگ تھی۔

"یہ سب تم نے کیا ہے!" عریشہ نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔

ایک گھائل شیرنی کی مانند اس کا یہ رویہ دیکھ کر بروٹ ایک لمحے کے لئے حیران ضرور ہوا تھا اور ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیوں کہ جب بات عزیزوں پر آ جائے تو بزدل انسان بھی جنگ کی پہلی صف میں موجود ہوتا ہے..,

کاشان مسکرایا۔ اس کی آنکھیں اس وقت اور بھی زیادہ نیلی اور برف جیسی سرد لگ رہی تھیں۔ "عریشہ، پری۔ تمہاری آواز کتنی حسین ہے جب اس میں جذبات شامل ہوں۔ 

ہاں، میں نے کیا ہے۔اسنے نہایت بے شرمی سے جواب دیا"

وہ عریشہ کی طرف جھکا۔ "تمہارے والد کا علاج اور الیان کی رہائی، دونوں ایک ہی شرط پر ممکن ہیں۔" اس نے سگریٹ کا دھواں ہوا میں چھوڑا۔ "تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی۔ اب! اسی وقت کل نہیں۔ اسی وقت۔ میں تمہارے خاندان کو تمام قرضوں سے آزاد کر دوں گا، الیان کی فائل بند کروا دوں گا، اور تمہارے والد کے علاج کا پورا خرچ اٹھاؤں گا۔ یہ واحد راستہ ہے، پری، جس سے تمہارا 'گھر' اور تمہارا 'کزن' دونوں بچ سکتے ہیں۔

یہ بات گویا ااسکی سماعتوں سے ٹکرائی تو اسے اپنی دنیا گھومتی ہوئی نظر آئی اسے لگا وہ سانس نہیں لے سکے گی"

عریشہ ٹوٹ کر زمین پر بیٹھ گئی۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کی روح کو نوچ لیا گیا ہے۔ اس کے والد کی زندگی ایک طرف تھی، اور الیان کی بے گناہی دوسری طرف۔ وہ جانتی تھی کہ یہ شادی اسے ایک تاریک قید میں ڈال دے گی، لیکن اس کی معصوم ذات نے فیصلہ کر لیا کہ وہ سب کچھ قربان کر دے گی۔

"مجھے منظور ہے۔" عریشہ نے خشک آواز میں کہا۔اورجزبات سے بلکل خالی لفظ استعمال کیا 

 "لیکن تم فوراً الیان کو رہا کرواؤ گے اور میرے والد کے علاج کا انتظام کرو گے۔"

"بہت خوب! میری پری۔" کاشان نے ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "اب تم صرف میری ہو۔

مجھے تم سے اسی فیصلے کی امید تھی"WELL DONE DEAR PARI …

شایان کی سب سے بڑی شکست:

اس دوران، شایان احمد اپنے نجی دفتر میں 'پروجیکٹ شیڈو' کے خلاف آخری اور فیصلہ کن ثبوت ڈھونڈ رہا تھا۔ اسے شک تھا کہ کاشان اس کی ماں کے ٹرسٹوں کو بیچ کر ایک بڑی پراپرٹی خریدنے والا ہے۔ آدھی رات کو، شایان کو وہ بینک اسٹیٹمنٹ ملی جس میں کاشان کی ساری سازش عیاں تھی۔ یہ وہ آخری ثبوت تھا جو کاشان کو نہ صرف کاروبار سے، بلکہ قانونی طور پر بھی تباہ کر سکتا تھا۔

وہ فوراً عریشہ کو کال کرنے لگا، لیکن اس کا فون بند تھا۔ اسے دل میں ایک گہری پریشانی محسوس ہوئی اور وہ اپنی گاڑی میں تیزی سے عریشہ کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔

جب شایان، عریشہ کے گھر پہنچا، تو ایک خوفناک منظر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ باہر چند پرتعیش گاڑیاں کھڑی تھیں، اور اندر کی روشنیوں سے ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا۔

کمرے میں کاشان، عریشہ، شائستہ بیگم اور ایک قاضی اور کچھ اور لوگ موجود تھے۔ شائستہ بیگم رو رہی تھیں، اور عریشہ کا چہرہ بالکل سفید پڑ چکا تھا۔

شایان دروازے پر رکا۔ اس کی بلی آنکھیں جو اب تک عزم سے بھری تھیں، ٹھنڈے پانی کی طرح جم گئیں۔ ٹھیک اسی لمحے، قاضی نے پوچھا:

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"

عریشہ نے، جس کی آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ نکلا، صرف ایک لفظ کہا: "قبول ہے۔"

شایان کے ہاتھ میں موجود ثبوت کا فولڈر زمین پر گرا۔

اسے لگا اس کا دل بند ہو راہا ہے اپنی محبّت کو اپنی آنکھوں کے سامنے کسی ایسے شخص کے پاس دیکھنا جس سے بچانے کی کوشش کی ہو ایسا ہوتا ہے جیسے کسی نے زندگی جینے کا مقصد ہی چھین لیا ہو یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی شکست تھی۔اور پھر محبت کی شکست ایسے ہوتی ہے جس میں انسان زندہ نظر آتا تو ہے مگر روح فنا ہو چکی ہوتی ہے وہ ایک سیکنڈ کی تاخیر سے آیا تھا۔اس د ن اسے ایک لمحے کی قیمت سمجھ آئی تھی اور یہ لمحہ اسے ویران کر گیا تھا اس نے اس پری کو بچانے کی جنگ شروع کی تھی، مگر وہ اسی شیطان کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی جس سے وہ اسے بچانا چاہتا تھا۔

—--------------------------------------------------------

شادی کا زہر آلود قفس:

اگلے دن، عریشہ اپنے والد کو ہسپتال میں دیکھ بھال کا یقین دلانے کے بعد، ایک سفید عروسی لباس میں، ایک بغیر پروں کی معصوم گڑیا کی طرح، کاشان احمد کے شاندار اور یخ بستہ ولا میں داخل ہوئی۔ کاشان اسے دیکھ کر مسکرایا۔

Welcome Home Dear Wife !

Welcome to my life .

"خوش آمدید، مسز کاشان احمد۔" اس نے ایک زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "اب تم مکمل طور پر میری ہو۔"

عریشہ جانتی تھی کہ اب اس کا سفر شروع ہو چکا ہے— دو مخالف قوتوں کے درمیان پھنسی ہوئی ایک مجبور پری کا سفر۔ اس کے شوہر کے پیچھے ایک شیطان چھپا تھا، اور اس کا سابقہ محافظ، شایان احمد، اب غم اور انتقام کے لیے پرعزم تھا۔

باب نہم کا اختتام

—-----------------------------------------------------

پری اور شیطان کی کہانی

باب دہُم: برف کے پیچھے کی آگ

سنہری قفس کی سرد راتیں:

عریشہ، اب مسز کاشان احمد بن کر، کاشان کے عالیشان ولا کی یخ بستہ فضاؤں میں ایک قیدی کی زندگی گزار رہی تھی۔ یہ ولا کسی محل سے کم نہ تھا، مگر عریشہ کے لیے یہ ایک سنہری قفس تھا جہاں ہوا بھی بھاری تھی۔ شادی کے بعد کاشان کا رویہ حیرت انگیز طور پر رسمی اور سرد تھا۔ اس نے عریشہ کو تمام آسائشیں فراہم کیں، گھر کا مکمل اختیار دیا، مگر ایک بھی پل ایسا نہیں آیا جب اس نے عریشہ کو اپنی بیوی یا اس سے محبت کرنے والے شخص کا احساس دلایا ہو۔

کاشان اپنے وعدے کا پکا تھا۔ اس نے نہ صرف عریشہ کے والد ارسم کا علاج کروایا، بلکہ الیان کو بھی باعزت طریقے سے تمام الزامات سے بری کروا دیا۔ عریشہ نے گھر کا ایک بھی کام نہ کرنے کا عہد کر رکھا تھا، مگر کاشان نے کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ وہ اسے ہمیشہ "پری" ہی کہتا، اور یہ نام اس کی باقی دنیا سے بالکل مختلف تھا۔ جہاں وہ باہر کی دنیا میں اپنی نفرت اور غرور کا مظاہرہ کرتا، عریشہ کے سامنے اس کی آواز دھیمی ہو جاتی تھی، جیسے وہ اس معصوم گڑیا کو اپنے تاریک سائے سے آلودہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔

عریشہ دن بھر اپنی یونیورسٹی کی کتابیں لے کر لائبریری میں بیٹھی رہتی، اور شام کو ہسپتال جاتی۔ وہ کاشان کو صرف رات کے کھانے پر یا صبح دفتر جاتے ہوئے دیکھتی۔ ان کے درمیان ایک غیر محسوس، غیر جذباتی دیوار کھڑی تھی— جو محبت کی نہیں، بلکہ مجبوری اور سودے کی تھی۔

پری اور شیطان کی کہانی

تکیے کی سرحد اور پگھلتا دل

شادی کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے۔ عریشہ (پری) اب باقاعدہ بروٹ کے سنہری قفس، یعنی احمد ولا، کے اس حصے کی ملکہ تھی جو خصوصی طور پر کاشان کا تھا۔ وہ ہر آسائش میں تھی، مگر ہر آسائش میں ایک قید کی آہٹ تھی۔

صبح کی پہلی تکرار: حکم اور مزاح

ایک صبح، جب عریشہ جاگ کر نیچے کچن میں آئی تو دیکھا کہ کاشان اپنے کمرے کے باہر بنے چھوٹے سے لائبریری نما دفتر میں بیٹھا، ہاتھ میں کافی کا کپ لیے فائلیں دیکھ رہا ہے۔ اس کے چہرے پر پتھریلی خاموشی چھائی تھی۔

عریشہ نے کچن میں جا کر اپنے لیے سادہ چائے بنائی۔ کاشان کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ اس کی بیوی اس کی اجازت کے بغیر کوئی سستی چیز استعمال کرے۔

"تمہارا مطلب کیا ہے؟" کاشان نے سخت، دبی ہوئی آواز میں پوچھا۔ "اس گھر میں بہترین کافی مشین ہے، اور تم یہ 'بوائلڈ پتیلے کا پانی' پی رہی ہو؟ کیا یہ سب میری 'ٹاپ کلاس امیج' کو تباہ کرنے کے لیے ہے؟"

عریشہ نے چائے کا گھونٹ لیا اور پہلی بار کاشان کی غیر ضروری حکمتی کو نظرانداز کرتے ہوئے، نہایت معصومیت سے جواب دیا۔ "مسٹر کاشان، اسے بوائلڈ پتیلے کا پانی نہیں، 'ارادۂ سفر چائے' کہتے ہیں کیونکہ یہ میرے اندر کی پری کو طاقت دیتی ہے۔ اور اگر آپ کو برا نہ لگے تو، میں نے آپ کے لیے بھی بہترین آئس برگ اسپیشل (اس کا دیا ہوا نام) بنا دی ہے۔"

کاشان کے چہرے پر غصے اور حیرت کی ملی جلی کیفیت تھی۔ "اور تم مجھے یہ نئے نام دینا کب بند کرو گی؟ آئس برگ؟"

"کبھی نہیں۔" عریشہ نے شانے اچکائے۔ "آپ کو اپنی فطرت تسلیم کرنی چاہیے۔ میں نے آپ کو جنابِ جمود (Mr. Stagnation) بھی سوچا تھا، مگر آئس برگ زیادہ رومانوی لگا۔ میری بیوی کو ہر لحاظ سے ٹاپ کلاس ہونا چاہیے؟" وہ اس کے الفاظ کو دہرا گئی۔ "تو مجھے لگتا ہے کہ ٹاپ کلاس انسان روح سے بنتا ہے، مہنگے برانڈز سے نہیں۔" اس نے ہلکی آواز میں کہا، مگر اس میں پری کی پختگی تھی۔

کاشان نے حیرت سے اسے دیکھا۔ اس کی اس سیدھی، شوخ بات نے اس کے اندر کی بروٹ کی دیوار کو ہلکا سا جھٹکا دیا۔

بروٹ کا پہلی بار پگھلنا: روح کا اعتراف

دوپہر کا وقت تھا۔ کاشان غصے میں تھا کیونکہ اس کی ایک غیر قانونی ڈیل لیک ہو گئی تھی۔ وہ اپنے دفتر میں آیا اور قیمتی میز پر زور سے ہاتھ مارا۔

عریشہ، جو اس کے لیے سلاد اور لیمن واٹر کا ٹرے لے کر آئی تھی، نے کاشان کی حالت دیکھی۔ وہ خاموشی سے کھانے کی چیزیں رکھ کر فوراً مڑنے لگی۔

"میں نے تم سے پوچھا نہیں تھا!" کاشان زور سے چلایا۔ اس کی آنکھوں میں شدید تناؤ تھا۔ "تمہیں کیا لگتا ہے؟ تم نے میری زندگی میں آ کر میری کمزوریوں کا نقشہ بنا لیا ہے! کیا تم مجھے بدلنے کے لیے میرے پاس آئی ہو؟"

عریشہ پلٹی، اس بار اس کی آنکھوں میں گہرائی تھی۔ "میں نے آپ سے شادی کی ہے کیونکہ میں مجبور تھی۔" اس نے صاف گوئی سے کہا۔ "لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھیں، تو آپ کو میری نہیں، اپنے پہلے نام 'زار' کی ضرورت ہے۔ بروٹ صرف آپ کا خوف ہے۔ آپ کو صرف یہ یاد دہانی چاہیے کہ دنیا خوبصورت بھی ہے، جو میں ہوں۔"

کاشان کے لیے یہ شدید ذاتی حملہ تھا۔ اس کا اندرونی دفاع مکمل طور پر ٹوٹ گیا۔ اس کاشان نے، جو ہزاروں لوگوں کو ڈرا سکتا تھا، عریشہ کی موتی آنکھوں میں دیکھ کر اپنی سب سے بڑی کمزوری کا سامنا کیا: تنہائی اور معصومیت کی پیاس۔

"مجھے مت چھوؤ!" کاشان نے اپنے ہاتھ کو ہوا میں سختی سے روکا، جب عریشہ نے میز پر رکھے ایک کاغذ کو چھوا۔ "میری برائی... میرا سایہ تمہیں بھی خراب کر دے گا۔ میں ایک ظالم اور خود غرض انسان ہوں!"

عریشہ اس کے قریب آئی، اس بار آنکھیں نہیں جھکائیں۔ "نہیں! آپ میرے 'چھوٹے سمندر' ہیں۔ باہر کی گہرائی خطرناک، لیکن اندر کی روح صاف۔" وہ اس کے چہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ "بروٹ صرف ایک پردہ ہے، جسے میں ہٹا کر ہی رہوں گی۔"

اس کی یہ بات سن کر کاشان کے چہرے پر ہزار سال کا دکھ جھلک گیا۔ اس کا ہاتھ بے اختیار عریشہ کی طرف بڑھا، پھر کانپ کر رک گیا۔ "تم... تم بہت خطرناک پری ہو۔" اس نے دھیمی سرگوشی کی، اور فوراً پیچھے ہٹ گیا۔

عریشہ کا دفاع: تکیے کی سرحد

اسی رات، عریشہ سو رہی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور کاشان اندر آیا۔ اس کے چہرے پر تھکاوٹ اور شکست دونوں تھی۔ کاشان نے بستر کی دوسری طرف لیٹنا چاہا تو عریشہ فوراً بستر کے بیچوں بیچ تکیا رکھ کر بیٹھ گئی۔

"یہ کیا ڈرامہ ہے؟" کاشان نے بے چینی سے پوچھا۔

"مسٹر آئس برگ، یہ 'بارڈر لائن' ہے۔" عریشہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "یہ آپ کو یاد دلائے گی کہ میں آپ کے نیک دل کی حفاظت کر رہی ہوں۔ جب تک آپ 'بروٹ' کے کردار میں ہیں، آپ کو یہ سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔"

کاشان غصے میں بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی آنکھوں کی بلی چمک میں ایک بے بسی تھی۔ "تم میری بیوی ہو! میں اپنی خواہش کو کیسے روک سکتا ہوں؟ میں جو چاہے کر سکتا ہوں تمہاری ساتھ ….تم نے کیوں کیاہے یہ سب؟"

"میں آپ کو روک نہیں رہی ہوں۔" عریشہ نے مضبوطی سے کہا۔ "میں آپ کو دکھا رہی ہوں کہ آپ کا دل کیا چاہتا ہے۔ آپ میری معصومیت اور مجبوری کا فائدہ اٹھا سکتے تھے، لیکن آپ نہیں آئے۔ آپ کی عزت اور میری روح کی پاکیزگی اس تکیے کی سرحد سے زیادہ قیمتی ہے۔"

کاشان نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ جسمانی طور پر اسے زیر کر سکتا ہے، لیکن عریشہ نے اس کی روح کو قید کر لیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک شدید پگھلاہٹ اور شکست تھی۔ وہ خاموشی سے بستر کے پاس سے اٹھا، اور صوفے پر جا کر لیٹ گیا۔

عریشہ نے ایک لمبی سانس لی۔ اس نے جان لیا تھا کہ بروٹ کا قلعہ ہلنا شروع ہو چکا ہے۔ وہ جرم کی شریک بن گئی تھی، لیکن اس نے عہد کر لیا تھا کہ وہ کاشان کے اندر کے انسان کو بچا کر ہی رہے گی۔

—-----------------------------------------------------

بارش کی رات اور تپتا جسم:

ایک رات اسلام آباد پر موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ کاشان دیر رات ایک نہایت حساس اور شاید غیر قانونی میٹنگ کے بعد ولا واپس لوٹا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح اپنی تمام پریشانیاں دروازے کے باہر چھوڑ دیں، مگر اس بار وہ بارش میں بری طرح بھیگ گیا تھا۔

عریشہ اپنے کمرے میں بستر پر بیٹھی پڑھ رہی تھی جب اس نے کاشان کے کمرے سے ایک ہلکی سی آواز سنی۔ یہ تکلیف اور بے چینی کی ملی جلی آواز تھی۔ عریشہ نے پہلے تو اسے نظرانداز کرنے کی کوشش کی، مگر اس کا معصوم اور رحم دل اندرونی حصہ اسے اجازت نہیں دے رہا تھا۔ وہ ایک پری تھی— جو تکلیف کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔

اس نے دروازہ کھولا اور کاشان کے کمرے میں گئی۔ کمرے کی فضا میں سردی اور نمی تھی۔ کاشان بستر پر بے سدھ پڑا تھا، اس کا رنگ سرخ ہو چکا تھا، اور وہ بری طرح کانپ رہا تھا۔ بروٹ، جو دنیا کو اپنی دھمکیوں سے ڈراتا تھا، آج ایک عام انسان کی طرح بخار میں مبتلا تھا۔

عریشہ نے جلدی سے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا— اس کا جسم تپ رہا تھا۔

پری کی خدمت:

عریشہ نے ایک پل بھی انتظار نہ کیا۔ اس نے نہ تو یہ سوچا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے اس کی زندگی برباد کی، اور نہ یہ کہ یہ اس کے انتقام کا وقت ہے۔ اس کی پرورش نے اسے سکھایا تھا کہ بیمار شخص کی خدمت فرض ہے۔

وہ فوراً باتھ روم سے تولیہ اور ٹھنڈا پانی لائی۔ اس نے کاشان کے چہرے اور گردن پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں۔ اسے بخار کم کرنے کی دوا دی جو ڈاکٹر نے گھر میں رکھوائی تھی۔ عریشہ نے ساری رات اس کی دیکھ بھال میں گزار دی۔ جب بھی کاشان کی پیشانی گرم ہوتی، وہ تولیہ بدل دیتی۔

شاید یہ پہلی بار تھا جب کاشان کو، جو ہمیشہ اپنے بل بوتے پر دنیا کو جھکانے کا عادی تھا، کسی کی بے غرض دیکھ بھال ملی ہو۔

بروٹ کا راز:

آدھی رات کے قریب، جب عریشہ اس کا ماتھا سہلا رہی تھی، کاشان نے ہولے سے آنکھ کھولی۔ بخار کی وجہ سے اس کی نیلی، بلی آنکھیں نیم خوابیدہ تھیں اور ان میں ہمیشہ والی سختی غائب تھی۔

"پری..." اس نے انتہائی دھیمی آواز میں سرگوشی کی، آواز میں ایسی کمزوری تھی جو عریشہ نے کبھی نہیں سنی تھی۔ "تم یہاں؟ تم میرا خیال رکھ رہی ہو؟"

عریشہ نے جواب میں صرف ایک آہ بھری۔

"جس دن میں نے تمہیں اپنے دفتر کے دروازے پر دیکھا تھا..." کاشان نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ "تم بالکل ایک معصوم گڑیا لگی تھیں۔ میں وہیں جان گیا تھا کہ مجھے تمہیں اپنے پاس رکھنا ہے۔ میں... میں یہ سب کچھ چاہتا تھا... صرف تمہیں اس سنہری قفس میں محفوظ رکھنے کے لیے

ت تم میری اس بچپن کی دوست کی طرح ہو جسے میں نے کھودیا ھمیشہ کےلئے…...."

وہ الجھن میں بول رہا تھا، جیسے اس کا بروٹ کا خول پگھل رہا ہو۔ "باہر کی دنیا میں میرے اندر صرف غصہ ہے، نفرت ہے... مگر جب تم میرے قریب ہوتی ہو... تو مجھے لگتا ہے کہ میرے اندر بھی کوئی سادہ انسان زندہ ہے۔"

عریشہ کا ہاتھ اس کے ماتھے پر رک گیا۔ یہ سن کر وہ سکتے میں تھی۔ وہ شیطان، جس نے اتنی چالاکی سے اس کی زندگی چھینی، آج اقرار کر رہا تھا کہ اس نے یہ سب محبت (یا شاید جنون بھری چاہت) کی وجہ سے کیا! کاشان کی معصومیت اور مجبوری کا وہ روپ جو اس کی تلخ زندگی نے چھین لیا تھا، آج اس کے وجود کی کمزوری میں نظر آ رہا تھا۔

پری کا تذبذب:

عریشہ کے دل میں شدید تذبذب پیدا ہوا۔ وہ دیکھ سکتی تھی کہ جس شخص کو وہ شیطان سمجھتی تھی، اس کے اندر بھی ایک ٹوٹا ہوا، خوفزدہ انسان چھپا ہوا ہے، جسے صرف معصومیت اور خلوص کا سہارا چاہیے تھا۔ کاشان، دنیا کے لیے بروٹ تھا، مگر عریشہ کے لیے وہ ہمیشہ ایک مختلف انسان رہا تھا— ایک ایسا شوہر جو عزت دیتا تھا مگر آزادی چھینتا تھا۔

عریشہ نے ساری رات جاگ کر اس کی خدمت کی، اور صبح جب بخار ٹوٹا تو کاشان سو رہا تھا۔ عریشہ چپکے سے اپنے کمرے میں واپس آ گئی۔

اگلی صبح جب کاشان دفتر جانے کے لیے تیار ہوا تو اس نے ایک پل کے لیے عریشہ کو دیکھا۔ اس کی بلی آنکھیں ایک لمحے کے لیے رک گئیں، جیسے وہ شرمندہ ہو یا کچھ کہنا چاہتا ہو۔

"شکریہ، پری۔" اس نے بہت دھیمی آواز میں کہا۔ وہ اس دنیا کا بروٹ تھا، مگر اس نے اپنی بیوی کے سامنے اپنا شکریہ ادا کر کے اسے ایک بار پھر یہ احساس دلایا کہ وہ اس کے لیے باقی دنیا سے بالکل الگ ہے۔

عریشہ جانتی تھی کہ اس کی زندگی میں خطرہ کم نہیں ہوا، لیکن اب اس کا دشمن ایک واضح شیطان نہیں، بلکہ ایک پیچیدہ انسان تھا، جس سے لڑنا اور بھی مشکل تھا۔

باب دہُم کا اختتام

—------------------------------------------------

 از قلم 

 اریشہ راجپوت 

More Chapters