پہلی قسط: یاریاں
پس منظر
اسلام آباد کی صبح ہمیشہ سردی اور خاموشی کا ایک نیا احساس لے کر آتی ہے، مگر جب یہ صبح
Quaid-e-Azam University
کے گیٹ پر دستک دیتی ہے، تو اُس خاموشی میں ایک پُر جوش طوفان کی آہٹ شامل ہو جاتی ہے۔ یہ آہٹ کسی موسم کی تبدیلی کی نہیں، بلکہ چار ایسی لڑکیوں کی دوستی کی تھی، جو اسکول کے بینچ سے نکل کر یونیورسٹی کا سب سے اہم حصہ بن چکی تھیں—رِمین، علیزے، ماہم، اور ایمان۔
لوگ کہتے تھے، جہاں یہ چاروں ہوں، وہاں یا تو کوئی دلچسپ مسئلہ شروع ہوتا ہے، یا پھر کسی سنہری یاد کا آغاز۔ وہ یونی کی جان تھیں، ہر سولیوشن کا پرابلم، اور ہر پرابلم کا سولیوشن اِن کے دماغ میں موجود ہوتا تھا۔
چار دوستوں کا تعارفThe Fireball : رِمیناَکڑ اور غصے والی آگ کا گولا
رِمین کی شخصیت آگ کا گولا تھی۔ اُسکا ماتھا ہمیشہ تنا رہتا تھا، اور اُسکی آنکھوں میں ایک ایسی چمک تھی جو سیدھا سوال کرتی تھی۔ وہ وہ لڑکی تھی جو کسی کی نہیں سنتی تھی، صرف اپنی مرضی کرتی تھی۔ اگر لیکچر سمجھ نہ آئے، تو وہ ٹیچر سے جھگڑ کر سب کے سامنے کلاس سے نکل جاتی تھی، اُسے کوئی ڈر نہیں تھا۔ اُسکی نظر میں دُنیا کے ہر دوسرے فرد کا دماغ خراب تھا، سوائے اُسکے۔
زندگی کا پہلو: رِمین کا غصہ اُسکی کمزوری نہیں، اُسکی طاقت
تھی۔ اُسکے اندر ایک زبردست حقیقت پسندی تھی۔ وہ مستقبل (Future) میں کارپوریٹ لاء کی دُنیا میں اپنی :دھاک جمانا چاہتی تھی، جہاں وہ بڑے سے بڑے لوگوں کو اُن کی حد بتائے۔
خواب
اُسکا خواب تھا کہ وہ پاکستان کی سب سے بے باک اورمضبوط )وکیل highest paid lawyer )
بنے۔ وجہ؟ تا کہ کوئی اُسے روک نہ سکے یا اُس پر حکم چلانے کی جُرت نہ کرے۔
The Novelsitic :علیزے ناول زادی اور خیالی دُنیا
علیزے بالکل مختلف تھی۔ اُسکا وجود ہمیشہ ایک میٹھی اُداسی اور خوشنما خیالوں میں ڈوبا رہتا تھا۔ وہ ایسی لڑکی تھی جو صبح کالج کی لائبریری میں گھستی اور شام تک سالار سکندر یا جہان سکندر کے خیالوں میں گُم رہتی۔ آج وہ سالار کی معصومیت اور پُر اسرار شخصیت پر فِدا تھی، تو کل اُسے جہان کی شیطانی مسکراہٹ یاد آتی تھی۔ اُسکے لیے اصل دُنیا سے زیادہ ناولوں کی دُنیا اہم تھی۔
زندگی کا پہلو
وہ ہر بات کو ایک ناول کے پلاٹ کی طرح دیکھتی تھی۔ اُسکی معصومیت شکل سے جھلکتی تھی، مگر اُسکے دل میں ایک شاعرانہ جذبہ تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے دوستوں کو ایسی رومانوی اور ڈرامائی ایڈوائس دیتی تھی جو ہمیشہ الٹی پڑتی تھی۔
خواب
علیزے کا خواب تھا کہ وہ ایک مشہور اردو ناول نگار بنے اور ایسی کہانیاں لکھے جو دُنیا کو سالار اور جہان سے بھی زیادہ چاہنے پر مجبور کر دے۔
The Influencer ماہم: فون ایڈکٹ اور ریل کوین
ماہم کی زندگی موبائل فون کی سکرین پر شروع ہوتی اور اُسی پر ختم ہوتی تھی۔ اُسکے ہاتھ سے فون کبھی دور نہیں ہوتا تھا۔ لیکچرز کے دوران بھی وہ ریلز پر ڈبل ٹیپ کرتی یا پھر آدھی کلاس کو "دیکھو میں کہاں ہوں" کے
Snapchat streaks
بھیج چُکی ہوتی تھی۔ اُسکی پارٹ ٹائم جاب صرف کانٹینٹ بنانا اور ریلز بھیجنا تھا، اور فل ٹائم جاب تھی – مُنہ بنانا اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جانا۔
زندگی کا پہلو
ماہم کی ناراضگی اور اُسکے پوٹس ہمیشہ اُسکی دوستوں کے لیے ایک مضحکہ خیز موقع ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ توجہ
(attention)
چاہتی تھی اور اُسکے کپڑے اور اسٹائل ہمیشہ
on-point ہوتے تھے
تاکہ اُسکی ہر ریل وائرل ہو۔
خواب
اُسکا خواب تھا کہ وہ پاکستان کی نمبر ون فیشن اور لائف اسٹائل انفلوئنسر بنے، اور اُسکے فالوورز اتنے ہوں کہ وہ کسی بھی برانڈ کو صرف ایک اسٹوری سے مشہور کر دے۔
The Roaster ایمان: شریف شکل، ڈرٹی مائنڈ Innocent Face +Dirty Minded (IF+DM)
ایمان، وہ لڑکی تھی جو اگر چُپ چاپ بیٹھی ہو، تو کوئی بھی اُسے دیکھ کر سوچے گا کہ یہ تو معصومیت اور حیا کی تصویر ہے۔ لمبے بال، دھیمی آواز، اور نظریں جھکا کر بات کرنا... مگر اصلی ایمان صرف اُسکی دوستوں کو معلوم تھی۔
وہ فل ٹائم روسٹر اور مائنڈڈرٹی
تھی۔ اُسکا ہر (pun) آگ لگا دیتا تھا اور اُسکے کمنٹس ہمیشہ ڈبل مینِنگ ہوتے تھے، لیکن وہ اتنی معصومیت سے بولتی تھی کہ سننے والے کو شک بھی نہیں ہوتا تھا۔
زندگی کا پہلو: ایمان ہمیشہ ہر روسٹنگ سیشن کی لیڈر ہوتی تھی۔ وہ شکل سے شریف بن کر، غلطی دوسروں پر ڈال کر نکل جاتی تھی۔ اُسکا دماغ اتنا تیز چلتا تھا کہ وہ ہر جھگڑے کو ایک مذاقی ڈیبیٹ میں بدل دیتی تھی۔خواب: ایمان کا خواب تھا کہ وہ تحقیقاتی صحافی (Investigative Journalist) بنے۔ وہ مانتی تھی کہ اُسکی شریف شکل اُسکی سب سے بڑی انٹیلیجنس ٹول ہے، جسے وہ بڑے سے بڑے راز اُگلوانے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔رات کی سیر اور مافیا وائبز
اُنکی دوستی صرف کلاس یا کینٹین تک محدود نہیں تھی۔ جب سورج غروب ہو جاتا اور اسلام آباد کی نیلی، ٹھنڈی رات شروع ہوتی، تو یہ چاروں لڑکیاں اپنی مافیا وائبز میں آ جاتی تھیں۔
رِمین اپنی ہیوی بائیک پر، علیزے اُسکے پیچھے، اور ماہم اور ایمان دوسری بائیک پر۔ اُنکے لیدر جیکٹس، اور چہرے پر ہلکی سی شرارتی مسکراہٹ۔ وہ کسی طوفان کی آمد کا اِشارہ ہوتی تھیں۔
اُس رات وہ دامنِ کوہ کے پاس سے گزر رہی تھیں۔ رِمین تیز رفتار میں بائیک چلا رہی تھی، ہوا اُنکے چہروں سے ٹکرا رہی تھی۔
"رِمین، تھوڑا دھیرے چلا لے، کہیں ہم جہان سکندر کے خیالوں سے اصل دنیا میں نہ گِر جائیں،" علیزے نے پیچھے سے چیخ کر کہا۔
رِمین نے پیچھے دیکھے بغیر غصے میں جواب دیا، "اگر تم جہان کے خیالوں میں ہو تو میں سالار کے خیالوں میں ہوں۔ اُسکو یہ سپیڈ پسند آتی ہے!"
ایمان نے ماہم کو ہلکا سا تھپڑ مارا جو بائیک چلاتے ہوئے بھی ریل چیک کر رہی تھی۔ "اوہ، ماہم! موبائل چھوڑ، سامنے دیکھ۔ یا تو ریل بنا لے، یا پھر زندگی۔ دونوں ایک ساتھ نہیں چلیں گی।"
"ہاں، ماہم، بس ایک منٹ۔ میں یہ sad pout والی ریل چلا رہی ہوں، یہ وائرل ہو رہی ہے!" ماہم نے مُنہ بنا کر کہا، جِس سے ایمان نے فوراً روسٹ کیا، "ہاں، اب تمہارا فل ٹائم پروفیشن ہے sad face
بنانا، تاکہ دُنیا کو پتہ چلے تم کتنی انوکھی (unique)
ہو۔"
راستے میں ایک لگژری کار اُنکے پاس سے گزری جِس میں سوار لڑکے اُن پر بیہودہ کمنٹ کرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ رِمین کی آنکھوں میں آگ آ گئی۔ وہ رُکنے والی لڑکی نہیں تھی۔
"ماہم، ایمان، موڑو بائیک! اب اِن کو اِن کی اوقات دکھاتے ہیں،" رِمین نے اپنی بائیک کی سپیڈ بڑھائی۔
لڑکیوں نے بائیکس رِورس کیں، اور کُچھ ہی سیکنڈ میں اُن لڑکوں ان کی کار کے پاس پہنچ گئیں۔ رِمین نے اپنی بائیک اُن کی کار کے سامنے لگا دی۔ وہ لڑکے گھبرا گئے۔اور ان میں سے دو گاڈی سے باہر نکل آئے
رِمین نے غصے میں اُن کی طرف دیکھا، "کیا ہوا؟ اب کیوں چُپ ہو؟ روڈ تمہارے باپ کی نہیں ہے۔ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھو!"
اس سے پہلے وہ کچھ کہتے علیزے آگے بڑھی اور تمسخر انا انداز میں بولی شکل سے تو شریف لگتے ہو مگر حرکتیں لفانڈروں جیسی ہیں…. سمیر :
اس کی بات سن کر اُن میں سے ایک نے کہا کہ آپ لوگ تو شکل سے بھی شریف نہیں لگتی ….
علیزے
You bloody lafandars! How dare you
ایمان، جو شکل سے سب سے شریف لگ رہی تھی، آگے بڑھی، ہاتھ میں ایک پانی کی بوتل تھی۔ اُس نے نہایت معصومیت سےآ گے ڈرائیور کو دیکھا اور پھرجو سامنے آیا dirty comment بڈ هتے اس اُسکی شرٹ پر پوری بوتل خالی کر دی۔
"بھائی، غلطی ہو گئی۔ یہ پانی تمہارے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہے، دماغ کو نہیں، کیونکہ وہ تو تمہارے پاس ہے ہی نہیں۔ سَوری!" ایمان نے کہا۔
اُن میں سے ایک آگے بڑھا اور کچھ کہنے کی والا تھا کہ دوسرے نے اسے ہاتھ پکڑ کر روک دیا
جب ایمان نے دیکھا کہ وہ
لڑکے کُچھ کہنے لگے، تو ماہم نے فوراً اپنا فون نکالا اور ویڈیو موڈ آن کر دیا۔ "دیکھو، ایمان، یہ 'لڑکے لڑکیوں کو تنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر روسٹ ہو گئے' کا نیا ٹرینڈ ہے، جلدی سے اِن کا ردِ عمل (reaction) ریکارڈ کر! ہیش ٹیگ!"
لڑکے شرمندگی اور خوف میں فوراً کار اسٹارٹ کر کے وہاں سے بھاگ گئے۔مگر اس سوچ کے ساتھ کے ان سے بدلہ ضرور لیں گے کیوں کہ ویڈیو بننے سے اُن کے لئے مشکل ہو سکتی تھی اور کہتے ہوئے گئے کے دیکھ لیں گے تم لوگوں کو
یہ الفاظ سن کر رمین کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ اُبھری تھی
چاروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور زور سے ہنس پڑیں۔
Mission Complete!
"مِشن مکمل!" رِمین نے بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔
وہ چاروں، پُر عزم اور خود دار، اُس رات اسلام آباد کی سڑکوں پر گھومتی رہیں، ہر رکاوٹ کو مذاق میں بدلتی رہیں۔ لیکن یہ صرف مستی تھی۔ اُن کی زندگی کا اصل سفر، جہاں اُن کی قسمت اُن کے ہمسفر سے مِلنے والی تھی، ابھی شروع ہونا باقی تھا۔
اس واقعے سے بے خبر کے وہ لوگ جنگ کی دعوت دے چکی ہیں جانے انجانے میں ہی ....
دوسری قسط: انتقام کی آہٹ اور چار مسافر
پچھلی رات اسلام آباد کی سڑکوں پر جو تماشہ ہوا تھا، اُس کا کڑوا گھونٹ حلق سے اُتارنا اُن چاروں لڑکوں کے لیے ناممکن تھا۔ وہ بھی اِسی یونیورسٹی کے طالب علم تھے اور اپنی جگہ کسی سے کم نہیں تھے۔ ہاسٹل کے ایک کمرے میں، جہاں کُرسیوں پر بے ترتیبی سے کتابیں اور بیگ پڑے تھے، وہ چاروں دوست سر جوڑے بیٹھے تھے، اور اُن کے چہروں پر ذلّت اور غصے کی ملی جُلی کیفیت تھی۔اور جس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ لڑکیوں سے بےعزت ہو گئے
وہ بھی ایک دوسرے کی جان تھے اور اُن کے نام تھے زِرار، آذان، سمیر، اور عُمیر۔
چار لڑکوں کا تعارف
یونیورسٹی میں ان چاروں لڑکوں کی پہچان بھی لڑکیوں کی طرح غیر معمولی تھی۔ وہ بھی ذہین تھے، کوئی بُری عادت نہیں تھی، مگر انداز مافیا وائبز سے کَم نہیں رکھتے تھے۔ مار پِیٹ میں ہاتھ کافی اچھا تھا اور خُوداری بھی بے مثال تھی۔
زِرار: اِنتقام کا متلاشی (رِمین کا ہم پلہ)
زِرار وہ لڑکا تھا، جِس کا دماغ بالکل رِمین کی طرح تھا۔ پُرسکون چہرہ، مگر اندر سے چالاک اور تیز۔ اُسے رات کی ہار قبول نہیں تھی، خاص طور پر اُس لڑکی (ایمان) کے ہاتھوں، جِس نے اُس کی شرٹ پر پانی پھینکا تھا۔ اُس کے چہرے پر خاموشی تھی، مگر دماغ میں بدلہ لینے کی پوری منصوبہ بندی چل رہی تھی۔ وہ ہارنے کے لیے نہیں بنا تھا۔
زندگی کا پہلو
زِرار ایک شاندار انجینئر بننا چاہتا تھا، جِس کے ہر فیصلے میں گہرائی اور پرفیکشن ہو۔ وہ ہر مسئلے کو ایک ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ دیکھتا تھا، لیکن ایک بار جب اُس نے کسی چیز کا فیصلہ کر لیا، تو اُس سے پیچھے نہیں ہٹتا تھا۔
خواب
اُس کا خواب تھا کہ وہ پاکستان میں ایک کامیاب ٹیکنالوجی کمپنی بنائے جو صرف اُس کے اصولوں پر چلے۔
2. آذان: ڈرپوک اور معصوم (Pyar Se Darpok)
آذان کو دوست پیار سے 'ڈرپوک' کہہ کر بُلاتے تھے، کیونکہ وہ الٹرا ٹائم کا معصوم تھا اور ہر چھوٹی بات پر گھبرا جاتا تھا۔ رات سڑک پر بائیک پر سوار لڑکیوں کو دیکھ کر اُس کی تو رُوح ہی کانپ گئی تھی۔ وہ دل کا بہت اچھا تھا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچا سکتا تھا، مگر دوستی میں جان بھی دے سکتا تھا۔ وہ ہر جھگڑے سے بھاگنے کی کوشش کرتا تھا، لیکن لڑائی کے وقت وہ اپنے دوستوں کو حوصلہ دیتا تھا۔
زندگی کا پہلو
آذان کا سب سے نرم گوشہ جانور اور پرندے تھے۔ وہ اپنے ہاسٹل کے کمرے میں بھی ایک ننھا سا باغبانی کا کونہ بنا کر رکھتا تھا۔ وہ دراصل بہت حسّاس تھا اور بہت جلد دوسروں سے مِکس نہیں ہوتا تھا۔
خواب
اُس کا خواب تھا کہ وہ ماحول کو بہتر بنانے والا آرکیٹیکٹ بنے اور ایسے پُرسکون گھر اور عمارتیں بنائے جہاں سکون ہو۔
3. سمیر: غصے والا محافظ (Loyal Protector)
سمیر غصے والا تھا، اُس کا پارہ رِمین سے بھی جلدی چڑھتا تھا، مگر وہ اپنے دوستوں کے لیے کُچھ بھی کر سکتا تھا۔ رات لڑکیاں جب اُنہیں تنگ کر رہی تھیں، تو سمیر ہی تھا جِس نے سب سے پہلے کار سے باہر نکلنے کی کوشش کی تھی تاکہ لڑے، مگر زِرار نے اُسے روک لیا تھا۔ اُس کی دوستی ایمان پر مبنی تھی اور وہ ہر وقت اپنے دوستوں کی ڈھال بن کر رہتا تھا۔
زندگی کا پہلو
سمیر کے غصے کے پیچھے اُس کا صاف دل چھپا تھا، وہ منافق نہیں تھا۔ اُسے کسی بھی قسم کی نا انصافی یا دھوکہ دہی بالکل برداشت نہیں تھی۔
خواب
سمیر ملک کی فوج میں شامل ہونا چاہتا تھا تاکہ وہ نہ صرف اپنے دوستوں بلکہ پورے ملک کا محافظ بن سکے۔
4. عُمیر: خُود پسند، مذہبی اور انٹرنیٹ سے بیزار
عُمیر کی شخصیت دو حصوں میں تقسیم تھی۔ ایک تو اُسے اپنے آپ سے شدید خُود پسندی (Self Obsession) کی بیماری تھی؛ وہ آئینے میں گھنٹوں خود کو دیکھ سکتا تھا۔ اُسے لگتا تھا کہ اُس کے آگے کوئی نہیں، بالکل عُمر حیات کی طرح۔ دوسری طرف، اُسے مذہب سے گہرا لگاؤ تھا اور وہ ہر وقت ہاسٹل میں وضو میں رہتا تھا۔ اِسی لیے اُسے انٹرنیٹ کے فِضول "چونچلوں" (ریلز، سٹریکس وغیرہ) سے سخت چِڑ تھی، جو اُس نے ماہم اور ایمان کو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔
زندگی کا پہلو
وہ چاہتا تھا کہ لوگ اُس کی ذہانت، اُس کے لباس، اور اُس کی مذہب سے وابستگی کی تعریف کریں۔ اُس نے رات کے واقعے کو اپنی نظر میں اخلاقی گراوٹ سمجھا اور اِسی وجہ سے اُس کا غصہ آسمان پر تھا۔
خواب
اُس کا خواب تھا کہ وہ ایک کامیاب سِول سرونٹ بنے، جِس کے پاس اِقتدار ہو، اور وہ ملک میں اِخلاقی اور تعمیری اِصلاحات لا سکے۔
ہاسٹل میں اگلی منصوبہ بندی
چاروں لڑکے ایک ہی یونیورسٹی ہاسٹل میں رہتے تھے اور ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے تھے۔ وہ جتنے شرارتی تھے، اُتنے ہی ذہین بھی تھے۔
رات کے واقعے کے بعد ہاسٹل کے کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سمیر غصے سے پیر ہلا رہا تھا، آذان ڈرا ہوا تھا، جبکہ عُمیر نے شرٹ پر لگے پانی کے داغ کو دیکھ کر استغفار پڑھا۔
زِرار نے آخر کار ماسک ہٹا کر، چہرے سے پُرسکون انداز میں کہا: "گھبراؤ مت۔ وہ چاروں ہماری ہی یونیورسٹی کی تھیں۔ مجھے اُنکی بائیک کے نمبر زکا ایک ایک حصہ یاد ہے۔ اور اُس لڑکی (رِمین) کا غصہ بھی میں نہیں بھولوں گا۔ اُس نے جو ٹکر دی تھی، اب بدلہ ہم نہیں، وقت لے گا... اور وقت کو ہم چلائیں گے۔"
سمیر نے غصے سے کہا، "وقت کیوں؟ ہم کیوں اُنہیں دُھول چٹائیں؟"
زِرار نے مسکرا کر اُس کی طرف دیکھا، "ہم انہیں دُھول نہیں چٹائیں گے۔ ہم انہیں اُسی میدان میں ہَرائیں گے جہاں وہ خود کو چیمپئن سمجھتی ہیں۔ تعلیم اور اِقتدار کے میدان میں۔ اور یہ بات پکی ہے کہ اب اُن کے ہر سولیوشن کا ایک پرابلم ہمارے پاس ہوگا۔"
زِرار کے چہرے پر ایک ایسی مسکراہٹ تھی، جِس سے لگتا تھا کہ کہانی کا اگلا باب اب رِمین اور اُس کے دوستوں کے خلاف ایک ذہین جنگ کی طرف جا رہا تھا۔ یہ چاروں لڑکیاں یونی کی شان تھیں، مگر یہ چار لڑکے اُن کی زندگی میں ایک ایسا موڑ لانے والے تھے،
جِس سے اُن کا مستقبل، اُن کے خواب، اور اُن کے ہمسفر جُڑنے والے تھے۔